ڈاکٹر پروفیسر مہدی حسن

ڈاکٹر پروفیسر مہدی حسن 1937 میں پانی پت میں پیدا ہوئے۔ ابھی چوتھی جماعت میں تھے کہ ملک تقسیم ہوگیا۔ آپ والدین کے ساتھ منٹگمری (ساہیوال ) چلے آئے۔ کالج کے بعد ایم اے جرنلزم کرنے لاہور آگئے اور پھر یہیں کے ہورہے۔ لاہور ہجرت کے بعد ٹی وی میزبان طارق عزیز کے ساتھ ایک مکان میں ساتھ رہے۔ ۔ اپنی کلاس فیلو سے شادی کی۔ ۔ ان کے دو بیٹے ہیں۔ ایک پاکستان اور دوسرے امریکہ میں مقیم ہیں۔ انکی پوتی امریکہ میں انگریزی زبان کی شاعرہ ہے۔ عملی صحافت کا آغاز پی پی اے سے کیا۔ ۔ آپ سولہ کتابوں کے مصنف ہیں۔ آپ کے قلم نے لگ بھگ پانچ ہزار مضامین تخلیق کئے۔
1967 میں جامعہ پنجاب میں تدریس کا آغاز کیا۔ ۔یحییٰ خاں کے مارشل لا کے خلاف بولنے پر اپ کو یونیورسٹی سے فارغ کردیا گیا۔ آپ ہائیکورٹ چلے گئے۔ عدالت عالیہ نے انہیں دس ماہ بعد بحال کردیا۔ ۔ ۔ وقت گزرتا رہا۔ ۔ آپ علم و آگہی کے چراغ جلاتے رہے۔ ۔ تحریک بحالی جمہوریت میں مورو میں بے گناہ شہریوں پر فائر کھول دیا گیا۔ ۔ پاکستان کے انسٹھ دانشوروں نے اس کے خلاف ایک یادداشت پر دستخط کئے۔ آپ جامعہ پنجاب کے واحد استاد تھے۔ جنہوں نے اس پر دستخط کئے۔ ۔ انہیں ایک بار پھر جامعہ پنجاب سے نکال دیا گیا۔ ۔ آپ نے پھر عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ ۔ اور کاظم رضا ایڈووکیٹ کو وکیل کیا۔ پیشی کے روز وکیل کو اغوا کرکے قلعے کے عقوبت خانے میں قید کردیا گیا۔ ۔ ڈاکٹر مہدی حسن اپنے وکیل آپ بنے۔ چیف جسٹس مجددمرزا نے کہا۔ ۔ ۔ ۔ پروفیسر۔ ۔ پاکستان میں حالات درست نہیں۔ آپ اپنی تنخواہ جیب میں ڈال کر سیدھا گھر جایا کریں۔ اپ سیاست میں کیوں الجھتے ہیں؟ ڈاکٹر مہدی حسن ن ملین ڈالر مسکراہٹ لبوں پر بکھیری اور کہا۔ ۔ یہ سیاست نہیں۔ ۔ اگر میں اپنے طالبعلموں کو مارشل لا کے نقصانات نہیں بتاتا تو اس کا مطلب ہے کہ میں اپنے طلبا کی رہنمائی نہیں کررہا۔ ۔ عدالت نے حکم امتناعی دے دیا۔ مقدمہ اٹھارہ سال تک چلا۔ مقدمہ ختم نہیں ہوا کہ ان کا عرصہ ملازمت اختتام کو پہنچا۔ ۔ اس دوران کئی لوگوں نے حالات کا مقابلہ کرنے کی بجائے ملک سے ہجرت کی اور خودساختہ جلاوطنی۔ اختیار کی۔ ۔ ان کے متعدد ساتھیوں نے این جی اوز بنائیں۔پر آپ تعلیمی محاذ پر ڈٹے رہے۔ ۔
ڈاکٹر مہدی حسن کی روشن خیالی کی جدوجہد نصف صدی پر محیط ہے۔ ۔ ان کا کہنا ہے وشن خیالی کے بغیر پاکستان دنیا میں اپنا مقام نہیں بنا سکتا۔ ۔ ان کے مشاغل میں ہاءیکنگ، ماونٹینرنگ، سکاوٹنگ اور فوٹو گرافی شامل ہے۔ ایک دور میں کتا پالنے کا شوق چرایا۔ پھر گھر کی تنگی کی وجہ سے شوق آدھ راستے میں چھوڑ دیا۔ ۔ جامعہ پنجاب میں ایک طلباتنظیم نے انہیں بہت زچ کیا۔ ۔۔ان پر رنگ برنگے الزام لگائے۔ یہاں تک کہ انہیں واجب القتل قرار دے دیا۔ ۔ ایک بار پوری جامعہ میں ان کے خلاف پوسٹر لگا دیئے گئے۔ ۔ ۔ مہدی حسن کو بھگاو۔ یونیورسٹی بچاو۔ ۔ وی سی گھبرائے۔ انہیں بلایا۔ اور کہا آپ رخصت پر چلے جاءیں۔ اپ مسکرانے اور کہا ان کا علاقہ صرف یونیورسٹی کی حدود ہے جبکہ میرا علاقہ اس حدودککے بعد شروع ہوتا ہے۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ اپ امریکہ کی یونیورسٹی اف کلوریڈا میں فل براءٹ سکالر رہے۔ ۔ یہاں اپ کی تحقیق کاموضوع امریکی ذرائع ابلاغ میں تیسری دنیا کے ملکوں کی کوریج تھا۔ ان کی پی ایچ ڈی جامعہ پنجاب سے تھی اور موضوع تھا، رائے عامہ بنانے میں پریس کیا کردار ادا کرتا ہے۔ انہیں ملنے کا کوئی پروٹوکول نہیں۔ ۔ ۔ چہرے پہ مسکراہت، باتوں میں شگفتگی، حس مزاح کی فراوانی، درویش طبیعت، اور خوشبودار پاءپ کا استعمال انکی شخصیت کے اجزا ہیں۔ اگر محبت انسان، علم کی جستجو اشفقت کو رلاملا دیا جاءے تو اس سے ڈاکٹر مہدی حسںن بنتے ہیں۔ ۔
ڈاکٹر مہدی حسن کلاس میں، کلاس سے باہر، اور اپنے دفتر میں پھلجھڑیاں چھوڑتے رہتے. ایک بار ہمارے ایک کلاس فیلو عارف شفیق (جو لاہور سے یونان گیا پھر دنیا کی بھیڑ میں کہیں گم ہوگیا) نے کلاس میں کمزور سی آواز میں سلام کیا. مہدی صاحب نے کہا. آپ سوال کررہے ہیں یا چیونگم کھارہے ہیں.
ڈاکٹر صاحب کو سیکڑوں، ہزاروں لطیفے یاد تھے. ان لطیفوں کی وجہ سے انکی م’فل زعفران زار بنی رہتی. ان کا دعویٰ تھا کہ جوکوئی انہیں نیا لطیفہ سنائے گا. وہ اسے سکہ رائج الوقت دس روپے دیں گے(دس روپے انیس سو چھیاسی میں ایک بڑی رقم ہوتی تھی)، شائید ہی کبھی ایسا ہواکہ کوئی ان سے شرط جیتنے میں کامیاب ہواہو. کہتے تھے. مزاح ذہانت کی اعلیٰ ترین شکل ہے. اور اس لطیف صنف سے زندگی سنگین سے رنگین ہوجاتی ہے.
ایک بار شعبہ ابلاغیات کے چئیرمین (تب یہی لکھاجاتا. چئیرپرسن کالفظ بہت بعد میں آیا.) پروفیسر ڈاکٹر مسکین علی حجازی اپنے کیری ڈبے میں ہمراہ ڈرائیور کے یونیورسٹی جارہے تھے. انہوں نے دیکھا کہ ڈاکٹر مہدی حسن بھی خراماں خراماں چلے جارہے ہیں. انہوں نے گاڑی روکی اور مہدی صاحب سے کہا.. حضور آجائیں میں بھی ڈیپارٹمنٹ جارہاہوں. آپ کوساتھ لئے چلتا ہوں. مہدی صاحب نے پکاسا منہ بناکر کہا.. نہیں میں پیدل جاؤں گا. مجھے ذرا جلدی ہے……. یہ کہتے ہوئے لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے یہ جا وہ جا.
یہ انیس سوستاسی کی ایک ٹھنڈی ٹھار دوپہر ہے. سورج نے سردی سے لڑتے لڑتے دھند میں منہ چھپا لیا ہے. جامعہ پنجاب میں انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ (آئی ای آر) کی تیسری منزل پر یہ شعبہ ابلاغیات ہے. چاچا شریف دفتری فائلوں میں سر کھپارہاہے.لڑکوں نے سردی سے بچنے کے لئے بھاری بھرکم ملبوسات پہن رکھے ہیں. لڑکیاں البتہ لڑکوں کی نسبت کم کپڑے پہنتی ہیں. یہ لاہور میں جاڑے کے دن ہیں. یہ جاڑا آج کے جاڑے سے بہت مختلف ہے. طلباطالبات سردی برداشت کرتے ہوئے وئی وئی کررہے ہیں. ڈاکٹر اے آرخالد ایک نوجوان اسسٹنٹ پروفیسر ہیں. یہ اپنی کلاس لے رہے ہیں. ڈاکٹر عافیرہ حامد کلاس میں سٹوڈنٹس کو اردوزبان کے اسرارورموز سمجھارہی ہیں. انتہائی شفیق استاد ڈاکٹر شفیق جالندھری فیچررائیٹنگ کی کلاس میں معروف فیچر رائیٹر ریاض بٹالوی کا ذکرکررہے ہیں کہ کس طرح وہ ایک فیچر کا مواد اکٹھا کرنے کے لئے جان جوکھم میں ڈال دیتے تھے. فیکلٹی لائن میں ترتیب وائز دفاتر ہیں.
ایک دفتر میں ایک سوٹڈ بوٹڈ شخص براجمان ہے. کلین شیو، آنکھوں میں متانت اور زہانت کی چمک، بہترین تراش کا سوٹ پہنے، پاؤں میں لیدرکے سیاہ تسموں والے جوتے، میچنگ ٹائی، آنکھوں پر عینک انکے چہرے کا رعب اور بھی بڑھارہی ہے. ہزاروں دلوں کی دھڑکن یہ ہیں عظیم استاد ڈاکٹر مہدی حسن. ڈاکٹر مہدی حسن شعبہ ابلاغیات کے وہ استاد ہیں جن کے نام کے ساتھ لفظ عظیم لگایا جاسکتا ہے. ڈاکٹر صاحب کے گرداگرد طلباطالبات کا ہجوم شہد کے چھتے میں چمٹی مکھیوں کی طرح جمع ہے. ڈاکٹر صاحب نے پائپ میز سے اٹھایا اور اس میں خوشبودار تمباکو بھرنے لگے. پائپ جلاتو کمرہ مردانہ خوشبو سے بھر گیا. سٹوڈنٹس کے ملبوسات سے اٹھنے والی خوشبو نے تمباکو کی خوشبو سے ملکر کمرے میں ایک رومانوی ماحول پیداکردیاہےایک لمبا کش لیکر بولے. یار چائے توبناؤ سب کے لئے…. تمباکو کے دھوئیں اور ڈاکٹر صاحب کی علمی گفتگو نے ایک سماں باندھ دیا.. علم کا ایک دریا تھا جو رواں دواں تھا. ڈاکٹر صاحب جب بولتے تو ہم ہمہ تن گوش ہو کر انکی باتیں سنتے. کوئی چوں بھی نہ کرتا. آپ ہمیشہ ہمارے ذہنی معیار کے مطابق گفتگو کرتے. کبھی ہمیں بات سمجھ نہ آتی تو بات دہراتے، باتیں کیا تھیں علم کے موتی تھے جو منطق کے دھاگے میں پروئے چلے جاتے. انکی محفل کی سب سے خوبصورت بات یہ تھی کہ وہاں ہم اپنے آپ کو چھوٹا محسوس نہ کرتے. بلکہ علم کے چند ایک موتی لوٹنے کے بعد ہم خود کو ایک چھوٹا موٹا پارٹ ٹائم دانشور سمجھنے لگتے.
ماس کام ڈیپارٹمنٹ بڑے نامور اساتزہ کا مسکن بن گیا تھا. ان میں کئی کتابوں کے مصنف دھیمے مزاج والے ڈاکٹر مسکین علی حجازی، مسئلہ افغانستان پر بلاتکان کئی کئی گھنٹے بولنے والے ڈاکٹر مجاہد منصوری، مطالعہ پاکستان کی نئی جہتیں متعارف کرانے والے ڈاکٹر جہانگیر تمیمی، اردو لسانیات اور ادب کی استاد ڈاکٹر عافیرہ حامد علی، کئی کتابوں کے مصنف اپنے نام کی طرح شفیق ڈاکٹر شفیق جالندھری، اور سب سے منفرد، اور بھیڑ سے ہٹ کرچلنے والے اور نئی راہیں تلاش کرنے والے ڈاکٹر مہدی حسن….
جو بھٹکتا ہے وہی راہ بنا جاتا ہے
ورنہ بستی میں کہاں سیدھاچلا جاتا ہے
ایسا تھا ماس کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ (اب سکول آف ماس کمیونیکیشن).. کیسی کیسی عبقری شخصیات اس دور میں ماس کام کا حصہ تھیں. ہراستاد ایک تراشا ہوا ہیراتھا.
ڈاکٹر مہدی حسن ہمیشہ سوال کی حوصلہ افزائی کرتے. کہتے سوال نصف علم ہے. ہماری ذہنی آبیاری میں ڈاکٹر مہدی حسن کا ایک اہم کردار رہا ہے. وہ ہم میں موجود نہیں. لیکن لگتا ہے کہ ہمارے اردگرد کہیں موجود ہیں. یوں لگتا ہے کہ ایک دن ڈاکٹر مہدی حسن سے ملاقات ہونی ہے. اور انہوں نے پائپ کا دھواں اڑاتے ہوئے کہنا ہے. ہاں. بھئ کیا چل رہا ہے. آجکل…
تجھے کس پھول کا کفن ہم دیں
تو جداایسے موسموں میں ہوا
جب درختوں کے ہاتھ خالی تھے۔