آرین۔۔۔کون تھے اور کہاں سے آئے تھے؟
یہ لوگ مدت تک پنجاب کے دریاﺅں کے کنارے خوش خوش سیدھے سادھے طور پر زندگی بسر کرتے رہے۔ انہوں نے بن کاٹے، زمین صاف کی۔ اس میں کھیتی کیاری کا سلسلہ جاری کیا۔ غلے کی خوش رنگ فصلیں پیدا کیں۔ خصوصاً گیہوں اور جو کی، یہ نورانی دیوتاﺅں کو پوجتے تھے، جن سے ہر قسم کی مدد کی امید رکھتے تھے۔ ہند میں آنے سے پہلے جبکہ ابھی اپنے سرد شمالی وطن میں مقیم تھے۔ ان کو کھانا پکانے اور گرم رہنے کے لیے آگ کی ضرورت پڑتی تھی۔ اس لیے یہ اگنی دیوتا کی بڑی پرستش کرتے تھے لیکن جب پنجاب میں آ کر دیکھا کہ فصلوں کے لیے مینہ کی ضرورت ہے تو فضائے آسمانی کے دیوتا” اِندر“ کی پوجا کرنے لگے اور اس کی تعریف میں منتر پڑھنے لگے۔ یہ لوگ خیال کرتے تھے کہ گرج ”اِندر “کی آواز ہے۔ بجلی اس کا نیزہ ہے اور یہ نیزہ جب کالے بادلوں کی پیٹھ میں گھستا ہے تو ان میں سے مینہ کی دھار نکل کر کھیتوں کو سیراب کرنے لگتی ہے۔
وہ خیال کرتے تھے کہ مرنے کے بعد انسان کی روح ہوا اور آسمان سے پرے ایک نورانی طبقے میں پہنچتی ہے۔ جہاں کسی قسم کا دکھ درد نہیں ہے۔ ہر وقت روز روشن اور سدا بہار ہے۔ ہمیشہ راحت و آرام اور امن و آسائش کا دور دورہ ہے اور جہاں ہر وقت دوستوں اور عزیزوں کا قرب نصیب ہے۔ ان کی اصطلاح میں اس طبقے کے حاکم کا نام” بیم“ تھا۔ ان کا یہ بھی خیال تھا کہ مرنے کے بعد سب لوگ ”بیم“ کے سامنے پیش ہوتے ہیں اور وہ ان کے اعمال کا لیکھا کرتا ہے۔ ان کے علاوہ اور دیوتا بھی تھے جن کو وہ پوجتے تھے۔ مثلاً” وُرُن“ جو نیلگوں آسمان پر حکومت کرتا تھا۔ سورج یا سوتری، وایو یا ہوا، رُوّر یا گرج، اُشس یا صبح کی سنہری اور سرخ شفق۔
قدیم ہندی آرین آج کل کے ہندوﺅں سے کئی باتوں میں مختلف تھے۔ ان میں ذات پات کی تمیز نہ تھی، نہ ان کے شوالے اور ٹھاکر دوارے تھے، نہ ٹھاکر اور مورتیاں تھیں۔ ان کی لڑکیاں اپنے لیے خود خاوند پسند کرتی تھیں۔ بیواﺅں کی شادی ہوتی تھی۔ ان کی غذا میں غلہ اور گوشت دونوں شامل تھے۔ یہ سوم رس پیتے تھے، جس سے ایک قسم کا نور آنکھوں میں آتا تھا۔( جاری ہے )
کتاب ”تاریخ ِ ہند“ سے اقتباس