”اگر سپریم کورٹ فیصلہ کرے گی کہ اجلاس کس دن کس منٹ پر ہو گا تو پارلیمان کو لپیٹیں اور گھر بھیج دیں ،پیسہ بچائیں “
وفاقی وزیر اسدعمر نے کہاہے کہ اگر سپریم کورٹ یہ بھی فیصلہ کرے گی کہ کس دن اجلاس ہوگا ، کس منٹ پر شروع ہو گا، تو اس پارلیمان کا کیا فائدہ ، پیسہ بچائیں ،اسے لپٹیں اور گھر بھیج دیں ۔
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی وزیر اسدعمر نے سپریم کورٹ کی بہت عزت ہے ، جمہوری نظام کا اہم ستون ہے ، تین ستون ہیں ایک عدلیہ، مقننہ اور تیسرا انتظامیہ ہے ، ان تینوں کا اہم کردار ہے ، لیکن سپیکر ہمارے آئین میں بڑی واضح لائن بھی کھینچی ہوئی ہے کہ ہر ادارے نے کس لائن میں رہتے ہوئے کام کرناہے ، آپ قانون کو ماننے والے انسان ہیں اس لیے آپ نے سپریم کورٹ کے حکم پر عملدرآمد کر دیا ۔اگر سب لوگ جمہوریت کے ماننے والے ہیںتو پارلیمان کی برتری کو بھی ماننے والے ہیں، اگر سپریم کورٹ یہ بھی فیصلہ کرے گی کہ کس دن اجلاس ہوگا ، کس منٹ پر شروع ہو گا، تو اس پارلیمان کا کیا فائدہ ، پیسہ بچائیں ،اسے لپٹیں اور گھر بھیج دیں ۔
اقتدار بچانے کیلئے ہو سکتا ہے حکومت آج پھر سرپرائز کی کوشش کرے ، مرتضیٰ جاوید عباسی
اسد عمر نے کہا کہ چلیں ہم ایک منٹ کیلئے مان لیتے ہیں کہ ڈپٹی سپیکر کا فیصلہ اچھا نہیں تھا ، کیا عدلیہ میں تمام فیصلے اچھے ہوتے ہیں، کیا اسی سپریم کورٹ کے فیصلوں کو جوڈیشل مڈر نہیں کہا گیا ، کیا پارلیمان فیصلہ کرتی کیونکہ ایک منتخب وزیراعظم کا جوڈیشل مڈر ہوا، سپریم کورٹ کے فیصلے کے ذریعے ، کیا اس کے بعد پارلیمان حق بجانب ہوتی کہ یہ فیصلہ کرتی کہ اب سے سپریم کورٹ میں کون سا کیس سنا جائے گا ، کتنے بجے سپریم کورٹ کھلے گا، کیا یہ درست ہوتا؟ یقینا درست نہیں ہوتا، جس طریقے سے وہ درست نہیں ہوتا اگر پارلیمان سپریم کورٹ میں مداخلت کرے اسی طریقے سے آئین میں جو پارلیمان کا کام ہے اس میں سپریم کورٹ کی مداخلت بھی ٹھیک نہیں ہے ، ہم ان کی بہت عزت کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے ، لیکن جو فیصلہ کیا وہ پارلیمان میں مداخلت ہے، تمام ہاﺅس کو یکجا ہو کر آواز بلند کرنی چاہیے کہ جو پارلیمان کا اختیار ہے وہ کسی اور کو دینے کیلئے تیار نہیں ہیں ۔
اس وقت فرق پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا نہیں ہے ،فرق اس وقت منحرف اراکین کس طرف کھڑے ہیں اس کا نہیں ہے ، فرق بنیادی طور پر دو نظریوں کا ہے۔ ایک نظریہ کہتا ہے "بیگرز کانٹ بی چوزرز”اور دوسرا نظریہ کہتا ہے کہ یہ 22 کروڑ عوام کا ملک کسی سے بھی کم نہیں ہے۔اور اگر ہم سے وہ سوال پوچھو گے جو عوام کے مفاد میں نہیں ہے تو ایک ہی جواب ملے گا ”
اسی دہرائے پر پاکستان کھڑا ہے ،کہ ہم نے فیصلہ کرنا ہے کہ ہم کو ملک کو کس سمت لے کر جانا ہے کیا یہ قائد اعظم کا پاکستان ہو گا ،کیا یہ وہ پاکستان ہو گا جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا ، کیا یہ خودار پاکستان ہو گا،ایک ایسا پاکستان جس کیلئے لاکھوں لوگوں نے قربانی دی۔یہ قربانیاں صرف زبان سے نہیں صرف مال کی نہیں صرف ہجر ت کر کے نہیں بلکہ یہ قربانیاں جان ومال کی قربانیاں تھیں۔