اگر کوئی آپ کو برا کہے تو کیا کرو؟
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: پرہیز گاری سے عزت اور بدکاری سے ذلت حاصل ہوتی ہے۔ مومن ہمیشہ نرم دل ہوتا ہے۔ اور کافر ہمیشہ شریر اور بدخلق ہوتا ہے۔ بدزبانی سے انسا ن کی عزت کم ہوتی ہے۔ اور بدکلامی سے انسان کی قدر ختم ہوجاتی ہے۔ آخرت سعادت مند لوگوں کا حصہ اور دنیا بد بختوں کی خواہش ہے۔ کسی کے برے کہہ دینےسے نہ ہم برے ہوجاتے ہیں۔ نہ اچھے، اپنی زبان سے ہر شخص اپنا ظرف دکھاتا ہے۔ دوسرے کا عکس نہیں۔ حرص، بدبختوں کی نشانی ہے۔ اور قناعت متقیوں کی علامت ہے۔ جہالت ایسی بلا ہے جو زندہ کو مردہ بنا دیتی ہے۔ اور بدبختی میں گرفتار رکھتی ہے۔ اپنے جیسوں کے ساتھ مقابلہ کرنےسے ہی بہادروں کی بہادری نمایاں ہوتی ہے۔ مومن کی بے ہودی باتوں سے شدید نفرت ہے اور وہ نیک کاموں سے الفت رکھتا ہے۔
دنیا میں خوش ہونا نہایت نادانی ہے۔ اور ا س موجودہ فانی گھر پر مغرور ہونا کمال بے وقوفی ہے۔ بخیل ہمیشہ ذلیل اور حاسد ہمیشہ بیمار رہتا ہے۔ ایک دفعہ حضر ت علی شیر خدا کہیں بیٹھے تھے۔ تو ایک شخص حضرت علی کےپاس آیا ، اور عرض کیا یا علی ! میں نے سنا ہے آپ کی جو تلوار ہے ذوالفقار یہ پہاڑ کو بھی چیر دیتی ہے کیا بات صیحح ہے؟ حضرت علی نے فرمایا: ہاں صیحح سنا ہے اس نے کہا یاعلی آپ اپنی تلوار دیں گے ۔ میں آزما کر دیکھنا چاہتا ہوں حضرت علی نے اپنی تلوار دے دی۔اس شخص نے تلوار زور سے دیوار پر ماری لیکن کچھ نہیں ہوا ، تو کہنے لگا یا علی ! آپ تو کہہ رہے تھے۔ پہاڑ توڑ دیتی ہے لیکن دیوار تو نہیں ٹوٹی؟ حضرت علی نے مسکراتے ہوئے کہا؟ میں نے تمہیں اپنی تلوار دی ہے۔ اپنا ہاتھ نہیں ذوالفقار تبھی ذوالفقار ہے
جب علی کے ہاتھ میں ہو ورنہ یہ صرف لو ہے کا ٹکڑا ہے اور کچھ نہیں۔ مجھے عبادت میں دو چیزیں پسند ہیں۔ سرد موسم میں فجر کی نماز اور گرم موسم میں رمضان کے روزے۔ عبادت ایسی کرو جس سے روح کو مزہ آئے کیونکہ جو عبادت دنیا میں مزہ نہ دے وہ آخرت میں کیا جزا دے گی۔ جب گناہوں کے باوجود اللہ پاک کی نعمتیں مسلسل ملتی رہیں تو ہوشیار ہوجانا کہ تیرا حساب قریب اور سخت ترین ہے۔ ایک دن امیر المومنین حضرت علی مسجد کے دروازے پر اپنے خچر سے اترے تو آپ نے اپنا خچر حفاظت کے خیال سے ایک شخص کے حوالے کیا ۔ اور مسجد میں تشریف لے گئے۔ آپ کے جانے کے بعد اس شخص کے دل میں خیانت آگئی اور اس نے آپ کے خچر کی لگا م نکالی اور فرار ہوگیا۔ حضرت علی نماز سے فارغ ہو کر جب مسجد سے باہر تشریف لائے
توآپ کے ہاتھ میں دو درہم تھے ۔ یہ دو درہم آپ خچر کی نگہبانی کرنےوالے شخص کو بطور معاوضہ دینا چاہتے تھے۔ لیکن آپ نے دیکھا کہ خچر بغیر لگام کے خالی کھڑا ہے۔ بہرحال آپ بغیر لگا م کے خچر پر سوا ر ہو کر گھر پہنچے اور اپنے غلام کو دو درہم دیے کہ وہ بازار سے دوسری لگام خرید لائے۔ غلام بازار گیا اس نے وہی لگام ایک شخص کےہاتھ میں دیکھی پوچھنے پر معلوم ہو ا کہا ایک شخص پر لگام دو درہم میں بیچ گیا ہے۔ غلام نے اس شخص ے دو درہم میں لگا م لے لی اور واپس آگیا۔ اورآپ کو ساری بات بتائی توآپ نے فرمایا: بندہ بعض اوقات خود صبر نہ کرنے اور عجلت سے کام لینے کی وجہ سے رزق حلال کو اپنے اوپر حرام کر لیتا ہے۔ حالانکہ جو کچھ رب العزت نے اس کی قسمت میں لکھا ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ اسے نہیں ملتا۔