تازہ ترین

شاید بہت سے لوگ لاعلم ہوں!!! امریکہ نے کن کن حکومتوں کے تخت الٹے؟ حیران کن تفصیلات منظر عام پر

شاید بہت سے لوگ لاعلم ہوں!!! امریکہ نے کن کن حکومتوں کے تخت الٹے؟ حیران کن تفصیلات منظر عام پر

لاہور: (ویب ڈیسک) سجاد اظہر لکھتے ہیں کہ” عمران خان کی جانب سے ان کی حکومت بدلنے کے پیچھے امریکی ہاتھ کی موجودگی میں سچ کتنا ہے اور جھوٹ کتنا، اس کا تصفیہ تو آنے والا وقت کرے گا، تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکہ نے سرد جنگ کے دوران دنیا کے مختلف ممالک میں 72 بار حکومتیں بدلنے کی کوشش کی ہے، اور اس کا پہلی بار انکشاف وکی لیکس میں سامنے آیا تھا۔

1947 سے 1989 کے دوران امریکہ نے 72 حکومتوں کو بدلنے کی کوشش کی۔ وکی لیکس کے مطابق ان میں سے 66 آپریشنز خفیہ تھے جبکہ چھ ایسے تھے جہاں امریکہ نے سرعام حکومتیں گرانے کی کوششیں کیں۔ یہ تمام کے تمام آپریشنز سرد جنگ کے دوران کیے گئے تھے جس میں ایک جانب اگر روس کوئی حکومت بنا رہا تھا تو دوسری جانب امریکہ اسی حکومت کو گرانے کی کوشش میں شریک تھا۔ بغیر جانی نقصان حکومتوں کی تبدیلی: امریکہ نے جن حکومتوں کے تختے الٹے، ان میں سے شاید سب سے معروف واقعہ ایران میں ڈاکٹر مصدق کی منتخب حکومت کی معزولی ہے۔ اس آپریشن کے سربراہ کرمٹ روزویلٹ نے جب اپنے مشن کی کامیابی کی خبر امریکی صدر آئزن ہاور کو دی تو صدر، جو دوسری جنگِ عظیم میں متحدہ فوج کے سپریم کمانڈر تھے، حیرت زدہ ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ انہوں نے روزویلٹ سے کہا کہ جو کام فوجیں بےپناہ جانی اور مالی نقصان اٹھا کر کرتی ہیں، وہ سی آئی اے نے ایک بھی امریکی جانی نقصان کے بغیر صرف چند ملین ڈالر میں کر دکھایا ہے۔ ایسا نہیں کہ ہر بار امریکہ فاتح رہا ہو۔ وکی لیکس کے مطابق 72 میں سے صرف 26 حکومتوں کو بدلنے میں امریکہ کو کامیابی ملی جبکہ 40 میں وہ ناکام رہا۔ امریکہ کی جانب سے 36 حکومتیں گرانے کی کوششیں مختلف عسکری و سیاسی گروہوں کی مدد سے کی گئیں۔ سیاسی طور پر صرف پانچ میں کامیابی ملی جبکہ براہ راست فوج کی مدد سے اسے 14 حکومتیں گرانے میں کامیابی ملی۔ حکومتیں گرانے کے 16 واقعات ایسے تھے جہاں انتخابات کے ذریعے من پسند پارٹیوں کو فنڈز دے کر اور مخالف حکومتوں کے خلاف پراپیگنڈا کر کے انہیں ختم کیا گیا۔ تاہم یہ کہنا کس حد تک درست ہے کہ اگر امریکہ ان امیدواروں کی بر وقت امداد نہ کرتا تو وہ انتخابات جیت پاتے؟ اس حوالے سے سی آئی اے کے ڈائریکٹر رے ایس کلائن نے ایک موقعے پر کہا تھا کہ حکومتیں بدلنے میں کامیابی کا انحصار صحیح وقت اور درست حکمت عملی پر ہے۔

یہ شان و شوکت تھوڑی دیر کی ہے: مختار مسعود جب آر سی ڈی کے سیکریٹری جنرل تھے تو وہ تنظیم کے ہیڈ کوارٹر واقع تہران میں ان دنوں تعینات رہے جب شاہ ایران کا تختہ الٹا جا رہا تھا۔ انہوں نے ایران میں اپنے قیام کی یادادشتوں پر مشتمل ایک کتاب ’لوحِ ایام‘ لکھی۔ اس کتاب میں وہ لکھتے ہیں کہ آر سی ڈی کے سیکریٹری جنرل کی حیثیت سے انہیں شہنشاہ ایران نے ایک بار خصوصی دعوت پر اپنے خاص جزیرے پر مدعو کیا۔ تہران سے جو جہاز انہیں اس جزیرے پر لے کر جا رہا تھا اس کا پائلٹ پاکستان ائیر فورس کا سابق آفیسر تھا۔ اس نے راستے میں مجھے اس جزیر ے کی خاصیت اور یہاں ٹھہرائے جانے والے خاص مہمانوں کے بارے میں بتانا شروع کیا کیونکہ یہ اس کے فرائضِ منصبی کا حصہ تھا۔ جب وہ یہ سب کچھ بتا چکا تو کہنے لگا، ’سر، اس جزیرے پر شہنشاہ کے پچھلے مہمان سی آئی اے کے چیف تھے۔ جب میں انہیں یہ ساری باتیں بتا رہا تھا تو ان کے منہ سے نکل گیا کہ ’اب یہ شان و شوکت تھوڑی دیر کی ہے۔‘ پائلٹ نے کہا، ’سر، بظاہر شاہ مضبوط ہے اور ابھی تو اس نے اپنی شہنشاہیت کا اڑھائی ہزار سالہ جشن بھی منایا ہے، پھر سی آئی اے چیف یہ کیوں کہہ رہا تھا؟‘ لیکن بعد کے واقعات تاریخ کا حصہ ہیں کہ ایران میں شاہ کا تختہ الٹ دیا گیا اور وہاں ایک اسلام پسند حکومت برسر اقتدار آ گئی۔ لیکن یہ سوال بہرحال موجود ہے کہ امریکہ کا شہنشاہ کی حکومت ختم کرانے میں اگر کوئی کردار تھا تو اس کے بعد جو حکومت برسر اقتدار آئی اس نے تو اب تک ہر جگہ امریکہ کو چیلنج ہی کیا ہے۔

ایران 1953: امریکہ کے معروف جریدے فارن پالیسی میگزین نے اپنی ایک اشاعت میں لکھا کہ امریکہ نے حکومتیں بدلنے کی روش کا آغاز ایران سے کیا جو بعد میں رکا نہیں بلکہ اب تک جاری و ساری ہے۔ اگرچہ اس سے پہلے شام میں 1949 میں فوجی حکومت کے قیام کے پیچھے بھی امریکی ہاتھ ہی بتایا جاتا ہے، تاہم ایرانی وزیراعظم ڈاکٹر مصدق سرد جنگ کے دوران امریکہ کا پہلا نشانہ بنے۔ 1953 میں جب ایران کے وزیراعظم ڈاکٹر مصدق نے شاہ کی اتھارٹی کو چیلنج کرتے ہوئے ایران کی تیل کی صنعت، جس کا انتظام پہلے برطانوی کمپنیاں چلا رہی تھیں، اسے قومیا لیا تو انہیں نہ صرف حکومت سے بے دخل کر دیا گیا بلکہ گرفتار بھی کر لیا گیا جہاں ان کی باقی زندگی نظر بندی میں گزری۔ بعد ازاں اس حوالے سے امریکہ نے جو خفیہ دستاویزات افشا کیں ان میں کہا گیا تھا کہ اگر اس وقت یہ قدم نہ اٹھایا جاتا تو ایران روسی بلاک میں چلا جاتا۔ یہ وقت تھا جب سرد جنگ عروج پر تھی اور امریکہ کوریا میں روسی اور چینی فوجوں کے ساتھ ایک غیر اعلانیہ جنگ میں شریک تھا۔ گوئٹے مالا 1954: امریکہ ابتدا میں گوئٹے مالا کے صدر جیکب آربنز کی مدد کر رہا تھا، تاہم جب گوئٹے مالا کے صدر نے زرعی اصلاحات کیں تو امریکی کمپنیوں کے مفادات کو خطرہ لاحق ہو گیا۔ اس کے بعد امریکہ نے گوئٹے مالا کے صدر کے مخالف باغیوں کو اسلحہ فراہم کیا گیا۔ گوئٹے مالا کی بندرگاہ کی ناکہ بندی کر دی گئی جس پر صدر آربنز اپنا عہدہ چھوڑنے پر مجبور کر دیے گئے۔ انڈونیشیا 1958: اندونیشیا میں سوئیکارنو کی حکو مت کو اس وقت مشکلات پیش آئیں جب اس کے کئی علاقائی کمانڈروں نے جکارتہ سے خودمختاری کا مطالبہ کر دیا۔ فروری 1958 میں سماٹرا اور سلاویسی نے سوئیکارنو کے خلاف اتحاد قائم کر لیا جس میں کئی سیاسی رہنما بھی شامل ہو گئے۔ امریکہ نے کمیونسٹ پارٹی کے خلاف اس اتحاد کو اسلحہ فراہم کیا۔ سوئیکارنو کے حامی اور مخالفین میں جنگ چھڑ گئی اس دوران ایک امریکی جہاز بھی مار گرایا گیا۔ سوئیکارنو نے 1958 تک بغاوت کو کچل دیا جس کے بعد صدر جان ایف کینیڈی نے سوئیکارنو کو واشنگٹن بلایا اور اسے اربوں ڈالر کی امداد دی۔ امریکہ نے کیوبا میں فیدل کاسترو کی حکومت کا تختہ الٹنے کی متعدد بار کوشش کی لیکن ناکام رہا (Vandrad – CC BY-SA 3.0)

کیوبا 1959 : امریکی صدر آئزن ہاور اور کینیڈی نے کیوبا کے صدرفیڈل کاسترو کے مخالف رہنماؤ ں کو اسلحہ اور مالی مدد فراہم کی تاکہ وہ کاسترو کی آمریت کے خلاف جدوجہد کر سکیں۔ سی آئی اے نے فیڈل کاسترو کو مارنے کے لیے کئی بار کوششیں کیں مگر اسے ہر بار ناکامی ہوئی۔ کانگو 1960: کانگو کی آزادی کے بعد جب وہاں کے وزیراعظم پیٹریس لمومبا کی جانب سے بیلجیئم کے معاشی مفادات کو خطرہ لاحق ہوا تو کانگو کے صدر نے وزیراعظم کو عہدے سے ہٹا دیا جس پر برطرف وزیراعظم نے روس کی طرف رجوع کر کے فوجی مدد حاصل کر نے کی کوشش کی تو انہیں سی آئی اے نے نشانہ بنایا۔ اسے پہلے زہر دے کر ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ناکامی پر انہیں پہلے گرفتار کیا گیا اور بعد ازاں مار دیا گیا۔ عراق 1960-63: عراقی وزیراعظم عبد الکریم قاسم نے دو سال پہلے مغربی حمایت یافتہ عراقی آمر فیصل دوم کو نکال باہر کیا تھا۔ ان کی حکومت میں کمیونسٹ پارٹی کا اثر رو رسوخ بڑھ رہا تھا اور وہ کویت پر حملہ کرنے کی دھمکیاں بھی دے رہے تھے جس پر عراق اور برطانیہ کے درمیان جنگ کی صورت حال پیدا ہو گئی تھی۔ امریکہ نے قاسم کو قتل کرنے کی کوشش کی جو ناکام ہو گئی۔ قاسم کی کابینہ کے 16 ممبران میں سے 12 بعث پارٹی کے ارکان تھے جب قاسم نے جمال عبد الناصر کی جانب سے متحدہ عرب رپبلک قائم کرنے کی تجویز کی حمایت نہیں کی تو وہ اس کے خلاف ہو گئے اور آٹھ فروری 1963 کو قاسم کو بعث پارٹی کے ایک سکواڈ نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔ امریکہ نے نئی حکومت کے ساتھ اتحاد بنا لیا مگر جلد ہی احمد حسن البکر نے امریکی حمایت یافتہ صدر عبد السلام کو نکال باہر کیا۔ ڈومینکن رپبلک1961: رافیل تراجیلو کی آمریت کے دوران ڈومینکن رپبلک میں ہیٹی کے ہزاروں باشندوں کو نسل پرستانہ فسادات کے دوران مار دیا گیا اور وینزویلا کے صدر کو بھی ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی جس پر اسے سیاسی مخالفین کی جانب سے قتل کر دیا گیا۔ اگرچہ ا س کے قاتل نے بیان دیا کہ اس نے یہ قتل کسی کے کہنے پر نہیں کیا مگر بعد ازاں معلوم ہوا کہ اسے تین پستول اور گولیاں امریکہ کی جانب سے فراہم کی گئی تھیں۔ جنوبی ویت نام 1963: امریکہ جنوبی ویت نام میں کافی اثر رسوخ حاصل کر چکا تھا کہ وہاں کے صدر ناگو دن نے بدھ مت سے تعلق رکھنے والے مخالفین پر عرصہ حیات تنگ کرنا شروع کر دیا جس پر امریکہ اور اس کے درمیان تناؤ پیدا ہو گیا۔ پینٹا گان پیپرز کے مطابق 23 اگست 1963 کو جنوبی ویت نام کے کچھ جرنیلوں نے ایک پلان امریکی حکام کے سامنے رکھا جس کے بعد جرنیلوں نے اسی سال یکم نومبر کو صدر کو ہلاک کر دیا۔ اس کے لیے سی آئی اے فنڈز سے 40 ہزار ڈالر کی ادائیگی کی گئی۔ برازیل 1964: امریکہ کے برازیل میں سفیر لنکن گورڈن نے لکھا کہ برازیلی صدر جاؤ گولارٹ برازیل کو چین کی طرز پر آگے لے کر جا رہے ہیں۔ جس پر امریکہ نے برازیل کی فوج کے سربراہ کاسٹیلو برانکو کے ذریعے 1964 میں برازیل کے صدر کا تختہ الٹ دیا۔ اس دوران سی آئی اے نے صدر کے خلاف مظاہرین کو پیسہ اور اسلحہ دیا۔ اس وقت کے امریکی صدر لنڈن بی جانسن نے حکم دیا تھا کہ برازیلی صدر کو اس کے عہدے سے ہٹانے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھایا جائے۔ جس کے بعد 1985 تک برازیلی فوج نے ملک پر حکومت کی۔ چلی 1973: 1970 میں جب ایک سوشلسٹ رہنما سالواڈور الیاندے انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے صدر بن گئے تو صدر رچرڈ نکسن نے سی آئی اے کو ہدایت کی کہ چلی کی معیشت کو تباہ کر دیا جائے۔ اس مقصد کے لیے سی آئی اے نے چلی کے تین گروہوں کے ساتھ کام کیا اور انہیں اسلحہ فراہم کیا، مگر یہ سازش کامیاب نہیں ہو سکی۔ اس کے بعد جنرل آگستو پنوشے کے ذریعے صدر کے خلاف 1973 میں بغاوت کروائی گئی جس نے اپنے مخالفین کو چن چن کر قتل کیا مگر سی آئی اے نے نئی حکومت کی مدد جاری رکھی۔ افغانستان 1979-89: اپریل 1978 میں کمیونسٹ نظریات رکھنے والی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان اقتدار میں آ گئی جس کے خلاف مشرقی افغانستان میں بغاوت شروع ہو گئی۔ جلد ہی اس بغاوت نے خانہ جنگی کی صورت اختیار کر لی۔ روس نے حکومت کی مدد کے لیے اپنی فوجیں بھیج دیں دوسری جانب امریکہ نے پاکستان میں باغیوں کی مدد کے لیے تربیتی کیمپ قائم کر لیے۔ ستمبر1979 میں صدر نور محمد ترکئی کو حافظ اللہ امین کے لوگوں نے قتل کر دیا۔ بعد میں حافظ امین کو روسی فوج نے قتل کر دیا۔ آنے والے سالوں میں افغانستان، امریکہ اور روس کے درمیان میدان جنگ بن گیا۔ امریکہ نے پاکستان کے ذریعے افغان مجاہدین کو اربوں ڈالر دیے جس کی وجہ سے سرخ فوج کو افغانستان میں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

ترکی 1980: ترکی میں 12ستمبر1980 کی فوجی بغاوت سے ایک روز پہلے تین ہزار امریکی فوجی ترکی پہنچے۔ 1981 کے اختتام پر امریکن ٹرکش ڈیفنس کونسل کا قیام عمل میں آ چکا تھا۔ ترکی میں کامیاب فوجی بغاوت کے بارے میں انقرہ میں سی آئی اے کے سٹیشن چیف پال ہنزے نے تسلیم کیا کہ ترکی کی حکومت کا تختہ الٹنے کا کارنامہ ہمارے لوگوں نے سر انجام دیا ہے۔ پولینڈ 1980-81: جب پولینڈ میں روسی افواج حرکت میں آئیں تو امریکہ نے پولینڈ کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا اور عوامی رابطہ مہم چلائی اور روسی مداخلت کے خلاف حکومت کی مدد کی۔ نکارا گوا 1981-90: سی آئی اے نے سندنیستا کی حکومت کو ختم کیا، نکارا گوا کی بندرگاہ کو تباہ کر دیا اور حکومت مخالف عسکری گروہوں کو اسلحہ فراہم کیا۔ عالمی عدالت انصاف نے نکارا گوا کی منتخب حکومت کے خلاف باغیوں کی مدد کرنے پر امریکہ کے خلاف فیصلہ دیا، جس کے بعد 1984 کے عام انتخابات میں سندنیستا کی جماعت جیت گئی، لیکن امریکہ نے وہاں مخالف جماعتوں کی مدد جاری رکھی جس کی وجہ سے 1990 میں سندنیستا کی حکومت ختم ہو گئی اور ان پر جنگی جرائم کے مقدمات قائم کر دیے گئے۔ کمبوڈیا 1980-95: امریکہ نے کمبوڈیا میں روسی مخالفین کو مدد فراہم کی اس دوران خانہ جنگی میں چار لاکھ 60 ہزار لوگ مارے گئے۔ کمیونسٹ حکومت کو کمبوڈیا کے بیس لاکھ لوگوں کے قتل کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔ انگولا 1980: انگولا میں کیوبا کی حمایتی حکومت اور جنوبی افریقہ کی حمایت یافتہ عسکری گروہوں کے درمیان خانہ جنگی میں دس لاکھ سے زائد لوگ مارے گئے۔ ریگن انتظامیہ نے کمیونسٹ مخالف باغی گروہوں کو مدد فراہم کی جنہوں نے حکومت کو بھاری جانی و مالی نقصان پہنچایا اور اقتدار حاصل کر لیا۔ تاہم امریکی حمایت یافتہ رہنما سومبی کو فوج نے 2002 میں قتل کر دیا۔ اس کے بعد سے انگولا دو متحارب گروہوں میں تقسیم ہے۔ فلپائن 1986: امریکہ نے کئی دہائیوں تک صدر مارکوس کی حمایت کی لیکن پھر اچانک اس نے مارکوس کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا اور اکی ہینو کے حق میں دستبردار کروایا۔ افغانستان 2001: امریکہ نے 11 ستمبر کے حملوں کو جواز بناتے ہوئے طالبان کی حکومت ختم کر کے اقتدار شمالی اتحاد اور دیگر اتحادی رہنماؤں کے سپرد کیا۔ تاہم 2021 میں افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد طالبان نے دوبارہ اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ عراق 2002-03: وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی کو جواز بنا کر امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے صدام حکومت کا خاتمہ کر دیا اور بعد ازاں صدام حسین کو نئی عراقی کی جانب سے پھانسی دے دی گئی۔ ہیٹی 2004: ہیٹی کے صدر جین برٹرنڈ جب دوسری بار صدر منتخب ہوئے تو ان کے خلاف بغاوت کروائی گئی اور انہیں گرفتار کروا کر امریکی جہاز میں ملک سے باہر بھیج دیا گیا۔ غزہ 2006: 2006 میں فلسطین میں ہونے والے انتخابات میں حماس اور الفتح نے کامیابی حاصل کر کے متحدہ حکومت بنائی جس کی سربراہی اسماعیل ہنیہ کر رہے تھے۔ 2007 میں حماس نے غزہ کا کنٹرول سنبھال لیا اور الفتح کے حکام کو برطرف کر دیا جس میں ہونے والی جھڑپوں میں 118 افراد مارے گئے۔ اسی سال امریکہ نے الفتح کے رہنما صدر عباس کو 8.4 کروڑ ڈالر فراہم کیے تا کہ وہ اپنی دفاعی صلاحیتوں میں اضافہ کر سکے۔ امریکہ نے حماس کو دہشت قرار دیتے ہوئے فلسطینی اتھارٹی کی مدد کی۔ صومالیہ 2006-07: امریکہ 2006 سے صومالیہ کے اسلام مخالف جنگی سرداروں کی مدد کر رہا ہے۔ صومالیہ میں اگرچہ اسلامک کورٹ یونین کی عمل داری ہے تاہم ا س پر خواتین اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام ہے۔ ایران 2005 تا حال: امریکہ ایرانی حکومت کے خلاف کام کرنے والی سیاسی جماعتوں اور ان کے لوگوں کو سالانہ 30 لاکھ ڈالر دے رہا ہے جو ایران اور ایران سے باہر حکومت کے خلاف سماجی میڈیا اور دیگر ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے کام کر رہے ہیں۔ امریکی کانگریس نے 2006 میں ایرانی حکومت مخالف گروہوں کی مدد کے لیے ’فریڈم اینڈ سپورٹ ایکٹ‘ منظور کیا جس کے تحت انہیں سالانہ ایک کروڑ ڈالر کی امداد دی جا رہی ہے۔ امریکی چینل اے بی سی نیوز نے انکشاف کیا تھا کہ 2007 میں صدر بش نے ایران میں بغاوت کے لیے 40 کروڑ ڈالر خرچ کرنے کی منظوری دی تھی۔ سی آئی اے نے سنی تنظیم جند اللہ کی مدد بھی کی۔ اسی طرح امریکہ ایران میں برسر پیکار تنظیموں کی مدد بھی کر رہا ہے تاکہ وہاں حکومت بدلی جا سکے۔لیبیا 2011: عرب بہار کے دوران جب لیبیا میں حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے تو امریکہ نے وہاں اپوزیشن کی مدد کے لیے اسلحہ فراہم کیا اور قذافی کی فوجوں پر بمباری کی جس کی وجہ سے کرنل قذافی کی حکومت ختم ہو گئی اور انہیں ہلاک کر دیا گیا۔ شام 2012 تا حال: صدر اوباما نے شام میں حکومت کی تبدیلی کے لیے اپنے اداروں کو احکامات دیے۔ 2012 میں ’فری شام‘ نام کی ایک فوجی تنظیم کی بنیاد رکھی گئی اور انہیں ہتھیاروں اور دیگر امداد کی مد میں ایک ارب ڈالر سے زائد کی مدد فراہم کی گئی۔ باغیوں کو سی آئی اے نے ہر طرح کی مدد فراہم کی۔ تاہم امریکی حمایت یافتہ باغی گروہ شام کی خانہ جنگی میں مسلسل شکست سے دوچار ہیں لیکن امریکہ ان کی مدد مسلسل جاری رکھے ہوئے ہے۔ پاکستان امریکہ کا اتحادی رہا ہے روس کی افغانستان میں مداخلت سے لے کر 11 ستمبر کے حملوں کے بعد سے افغانستان میں امریکی مفادات کو جب جب خطرہ ہوا پاکستان نے ہمیشہ صف ِ اوّل کا کردار ادا کیا۔ ان دونوں مرحلوں پر اقتدار براہ راست فوجی حکمرانوں کے پاس رہا ہے، اس لیے ایک عام تاثر ہے کہ پاکستان میں فوجی اقتدار کو امریکی مدد حاصل ہوتی ہے۔ لیکن اس بات کا اعتراف امریکہ کی کسی دستاویز میں سامنے نہیں آیا بلکہ 11 ستمبر کے بعد ہونے والی جنگ میں پاکستان پر الزام ہے کہ اس نے درپردہ امریکی مخالفین کو مدد فراہم کی ہے۔ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد سے پاک امریکہ تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں۔ لیکن روس یوکرین جنگ کے بعد سے پاکستان پر امریکہ کا شدید دباؤ ہے کہ وہ اس جنگ میں مغرب کا ساتھ دے۔ اسی پس منظر میں عمران خان نے اپنی حکومت کو گرائے جانے کے پیچھے امریکی ہاتھ کی موجودگی کا الزام عائد کیا ہے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button