پاکستان میں موجودہ سیاسی صورتحال میں ہر پاکستانی مضطرب ہے ،وہ چاہے ملک میں ہوں یا ملک سے باہر ،سیاسی منظرنامہ ملک میں ایک عجیب وغریب صورتحال پیش کر رہا ہے۔ عمران خان کے جانے کے بعد عوام کے سامنے جو نام بطور وزیر اعظم سامنے آئے ہیں وہ بھی عوام میں کوئی زیادہ قابل قبول نام نہیں ہیں۔ لیکن 10 اپریل 2022 کو اپوزیشن کی طرف سے پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں منتخب وزیرِاعظم عمران خان اپنے عہدے سے فارغ ہو چکے ہیں اور آج اپوزیشن میں سے نگراں وزیر اعظم کا انتخاب کیا جائے گا۔ اس وقت پوری دنیا میں جو سیاسی صورتحال درپیش ہے اس میں دیکھا جائے تو کسی بھی ملک کا رہنما یا وزیراعظم ایسا نظر نہیں آتا جو عوام کا مقبول لیڈر ہو یا عوام کے لئے جس نے کارہائے نمایاں سرانجام دئیے ہوں ۔ یہاں بھی عمران خان گو کہ 3 سال سے زائد عرصے تک وزیراعظم رہے لیکن اس پورے عرصے میں ملک میں مجموعی صورتحال خراب سے خراب تر ہوتی چلی گئی۔ ایسی ہی صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہمیں مختار مسعود کی کتاب "آوازِ دوست” کا یہ اقتباس یاد آیا جس میں وہ فرماتے ہیں کہ۔۔۔
"ایک وہ دہائی تھی جو 1870 سے شروع ہوئی ۔اس دہائی میں بڑے بڑے آدمی پیدا ہوئے۔ گاندھی جی دوسروں سے سبقت لے جانے کی کوشش میں اس دہائی سے ایک سال قبل ہی پیدا ہوگئے۔ وہ دس برس بھی کیا منتخب سال تھے کہ اگر یورپ میں چرچل، لینن، اور اسٹالن پیدا ہوئے تو براعظم ایشیا میں قائد اعظم،علامہ اقبال،محمد علی جوہر،اور ظفر علی خان بھی انہی برسوں میں پیدا ہوئے ۔اس کے بعد براعظم میں نہ جانے مسلمانوں پر کیا افتاد پڑی کہ نہ دیوانے پیدا ہوئے اورنہ فرزانے ۔ ہمارے حصے میں تو بس ایک ہجوم آیا سرگشتہ اور برگشتہ۔1870 کی دہائی میں پیدا ہونے والوں کی عظمت کا یہ عالم تھا کہ 1960 سے 1945 کی ربع صدی میں دنیا کا ہر بڑا کام نہ ان کے بغیر چل سکتا تھا نہ بند ہو سکتا تھا۔ اس رعایت سے مجھے پاکستان میں ان لوگوں سے توقعات تھیں جو بیسویں صدی کے پہلے بیس برس میں پیدا ہوئے تھے ۔ ساری توقعات عبث ثابت ہوئیں ۔ شاید ان بیس سالوں میں مائیں صرف افسر اور تاجر ہی جنتی رہیں۔ ممکن ہے قدرت اس فیاضی کا جو اس نے انیسویں صدی کی ساتویں دہائی میں دکھائی تھی حساب لے رہی ہے۔ جو ملک اور قومیں اس میزان پر پوری اتریں ، انہیں مزید بڑے آدمی عطا ہوئے اور جو ناکام رہیں انہیں سزا کے طور پر ایسے لوگ ملے جو شامتِ اعمال ہوا کرتے ہیں۔”
مزید ایک جگہ اور اسی کتاب میں وہ کہتے ہیں ۔۔۔
"ایک بار کسی نے اعتراض کیا کہ مسلمان یونہی قحط الرجال کا رونا روتے رہتے ہیں ،سقوطِ بغداد کے بعد یہ ان کی عادت بن چکی ہے ۔ وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے مہدی آخرالزماں کے انتطار میں بیٹھے رہتے ہیں ۔ اگر کوئی کام کرنا چاہے تو کرنے نہیں دیتے ،بولنا چاہے تو سنتے نہیں، لکھنا چاہے تو پڑھتے نہیں۔ اگر کوئی رہنمائی کرے تو لوگ غالب کی طرح اس کے پرزے اڑا دیتے ہیں ۔ یہ لیڈر کے پیچھے چلنے کے بجائے لیڈر کے پیچھے پڑ جاتے ہیں ۔ ہندوؤں کو دیکھو وہ کتنے فرزانے ہیں ۔ اپنے ہر رہنما کو اوتار اور مہاتما بنا لیتے ہیں ۔ نواب بہادر یار جنگ نے اس اعتراض کا جواب یوں دیا کہ ہندو کا دیوتا بےحس وحرکت بت، ان کی دھرتی ماتا پامال، ان کی گاؤ ماتا بے زبان، وہ ہر حال میں اپنے لیڈر کو جو انسان ہوتا ہے ان سے بہتر پاتے ہیں اس لئے بے پایاں عقیدت کا اظہار کرتے ہیں ۔ مسلمان اپنے رہنما کو دیکھتے ہیں تو بے اختیار قرونِ اولٰی کی یاد آجاتی ہے ۔ وہ اسے سنت کی کسوٹی پر گھستے ہیں اور سارا ملمع اتر جاتا ہے ۔ یہ کوئی نفسیاتی عارضہ یا اجتماعی نقص نہیں بلکہ معیاراور مزاج کا فرق ہے۔
پاکستان میں کون کون سے وزرائے اعظم اپنے عہدے پر کتنا عرصہ کام کر سکے؟
گورنر جنرل آف پاکستان نے 1947ء میں لیاقت علی خان کو پاکستان کا پہلا وزیر اعظم منتخب کیا جنہیں 1951ء میں قتل کر دیا گیا۔ چھ شخصیات 1951ء سے 1958ء تک وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہیں اور ان کے بعد صدر پاکستان اسکندر مرزا نے 1958ء میں اس عہدے کو ختم کر دیا۔ پھر یحییٰ خان نے 1971ء میں نور الامین کو اس عہدے پر نامزد کیا لیکن وہ صرف 13 دن ہی اس کرسی پر رہ پائے۔ 1973 کے نئے قانون کے مطابق اسے دوبارہ تخلیق کیا گیا اور ذوالفقار علی بھٹو اس مسند پر فائز ہوئے۔ انھیں ضیاء الحق نے اس حکومت سے باہر کیا اور 1977ء میں انہوں نے اسے عہدے کو ختم کرتے ہوئے خود چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے عہدے پر بیٹھے۔ پھر 1985ء میں انھوں نے محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم منتخب کیا لیکن انہیں بھی انہوں نے آئین کی آٹھویں ترمیم کے تحت 1988ء میں ہٹا دیا۔
نواز شریف(1990 تا 93 اور 1997 تا 99) اور بینظیر( 1988 تا 90 اور1993تا 96) دونوں 1988 سے 1999 کے درمیان میں غیر مسلسل طور پر دو دو دفعہ اس عہدے پر رہے۔ آئین پاکستان میں کی گئی 13 ویں اور14 ویں ترمیم کے باعث نواز شریف تاریخ میں پہلی دفعہ سب سے طاقتور پاکستانی وزیر اعظم بنے۔ پانچ سال اور چار ماہ اس عہدے پر رہ کر نواز شریف سب سے زیادہ عرصہ اس عہدے پر رہنے والے شخصیت ہیں۔ انہیں 1998ء میں پرویز مشرف کے فوجی بغاوت کے نتیجے میں حکومت سے نکال دیا گیا۔ نواز شریف کو 5 جون 2013ء کو تیسری دفعہ غیر مسلسل طور پر اس عہدے کے لیے چنا گیا اور پاکستانی تاریخ ایسا پہلی دفعہ ہی ہوا ہے۔
مشرف کی بغاوت کی وجہ سے 2002 کے انتخابات کے بعد میر ظفر اللہ خان جمالی کے اس عہدے پر آنے تک یہ عہدہ خالی رہا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے راجہ پرویز اشرف 25 جون 2012ء کو اس وقت وزیر اعظم بنے جب پاکستانی سپریم کورٹ نے جون 2012ء کو یوسف رضا گیلانی کو توہین عالت کے جرم میں عہدے سے نا اہل قرار دیا۔ پرویز اشرف کے بعد میر ہزار خان کھوسو نگران وزیر اعطم رہے۔ انتخابات کے بعد نواز شریف تیسری بار پاکستان کے وزیر اعطم بنے، جن کو 2017ء میں عدالت کی طرف سے ناہل قرار دے دیا گیا۔ ان کے بعد مئی 2018ء تک شاہد خاقان عباسی وزیر اعظم بنے۔ ان کے بعد نگران وزیر اعظم ناصر الملک بنے اور 17 اگست 2018ء کو عمران خان پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ہوئے، اود 3 اپریل 2022ء تک بطور وزیراعظم رہے،10 اپریل 2022 کو اپوزیشن کی طرف سے پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں عمران خان کو اس عہدے کو چھوڑنا پڑا۔