اسلامک کارنر

والدین کی نافرمانی

کائنات میں افضل اور اشرف مخلوق انسان ہے انسان کو یہ عظمت وشرف عقل کی وجہ سے ملا اسی کی پرورش کی گونا گوں ذمہ داری عائد کی گئیں عام حیوانات کے مقابلے میں انسان کی ایک خصوصیت یہ ہے کے وہ مدنی الطبع واقع ہوا ہے مدنیت کے استقرار اور اُس کے لزوم ہی کیلئے باہمی انس ومحبت کا جذبہ ودیعت کیا گیا ہے یہ انس ومحبت کا جذبہ فطری طور پر بدرجہ اتم والدین کو عطاء کیا گیا ہے اولاد کیلئے والدین دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہیں والدین کی جس قدر عزت وتوقیر کی جائے گی اسی قدر اولاد سعادت سے سرفراز ہوگی شریعت میں والدین کے ساتھ حُسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے۔۔۔وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا ۭ اِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَآ اَوْ كِلٰـهُمَا فَلَا تَـقُلْ لَّهُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيْمًا؀اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے تم اس کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔ اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات کرنا (سورہ اسراء آیت ٢٣)۔۔۔

مذکورہ آیت کریمہ میں اللہ تعالٰی نے جہاں اپنی عبادت کا حکم دیا اسی کے ساتھ یہ بھی ذکر فرمایا کے والدین کے ساتھ حُسن سلوک کرو اور اُن کو اُف تک بھی نہ کہو، والدین کی عزت و احترام دینی ودنیاوی بہتری کا سبب ہوتی ہے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کے سروں پر والدین کا سایہ ہے اور سعادت مند ہے وہ اولاد جو ہر حال میں اپنے والدین کے ساتھ حُسن سلوک رکھتی ہے اور اُن کا احترام کرتی ہے۔۔۔بات دراصل یہ ہے کے والدین اللہ کی دو بڑی صفات سے متصف ہیں۔۔۔١۔ اللہ خالق حقیقی ہے۔۔۔٢۔ تو والدین خالق مجازی۔۔۔اللہ تعالٰی حقیقی رب ہے تو والدین مجازی رب ہیں۔۔۔توحید وعبادت کے بعد اطاعت وخدمت والدین واجب ہے۔۔۔ اس کی وجہ یہ ہے کے انسان کے وجود میں آنے کا سبب تو اللہ تعالٰی کی حقیقی ذات ہے کہ اس نے اس کو پیدا کیا اور ظاہری سبب والدین ہیں پس اللہ تعالٰی عبادت کے لائق ہوا اور اس کے بعد والدین احسان وشکر اور فرمانبرداری کے مستحق ہوئے اسی بات سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کے شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ والدین کی نافرمانی ہے۔۔۔

حدیث مبارک کا مفہوم ہے۔۔۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔۔عن عبد الرحمن بن أبي بکرة عن أبيه قال قال رسول الله صلی الله عليه وسلم ألا أخبرکم بأکبر الکبائر قالوا بلی يا رسول الله قال الإشراک بالله وعقوق الوالدينعبدالرحمن بن ابی بکرہ ابی بکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کیا میں تم کو سب سے بڑے گناہ نہ بتلا دوں، لوگوں نے عرض کیا، کیوں نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا، اللہ کا شریک ٹھہرانا اور والدین کی نافرمانی کرنا۔ (رواہ البخاری)۔۔۔

اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد ہوا۔۔۔جو شخص اپنے والدین کی طرف ایک نظر محبت سے دیکھتا ہے تو اُس کو حج مقبول کا ثواب ملتا ہے صحابہ نے عرض کیا اگر دن میں سو مرتبہ دیکھئے؟؟؟۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں اللہ بزرگ وبرتر ہے اور پاک تر ہے (رواہ بیہقی)۔۔۔یہ بات اظہر من الشمس ہے کے اللہ تعالٰی کی خلقت میں سے کسی کا احسان اس قدر نہیں جس قدر والدین کا احسان اولاد پر ہوتا ہے پھر اولاد کو والدین کا اتنا شکر کرنا چاہئے اور اس قدر اطاعت وفرمانبرداری بجالانی چاہئے کے ساری خلقت میں سے کسی کی نہیں کرنی چاہئے۔۔۔ اولاد والدین کے جسم کا ایک ٹکڑا ہوتے ہیں۔۔۔ اسی لحاظ سے والدین اولاد کے ساتھ ازحد محبت وشفقت کرتے ہیں اپنی زندگی اولاد پر چھڑکتے ہیں ہر طرح کی نیکی اور بھلائی اولاد کو پہنچاتے ہیں تمام عمر ان کے لئے کماتے ہیں اور آخر ساری کمائی اور جائیداد خوشی سے ان کیلئے چھوڑ کر ماجاتے ہیں پس اللہ تعالٰی کے ارشاد ک مطابق نیکی کا بدلہ بجز نیکی کیا ہوسکتا ہے۔۔۔

هَلْ جَزَاۗءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُنیکی کا بدلہ نیکی کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے؟ (سورہ رحمٰن آیت ٦٠)۔۔۔سوچیں غور کریں کہ والدین جو نیکی اولاد کے ساتھ کرتے ہیں کیا کوئی اور بھی ایسی نیکی کرتا ہے؟؟؟۔۔۔ ہرگز نہیں تو پھر اولاد کو بھی والدین کے ساتھ بےمثال نیکی، خیرخواہی، محبت، احسان اور فرمانبرداری کرنا ضروری ہے اپنی جان اولاد اور مال ماں باپ پر قردینا چاہئے اگر اولاد والدین کی خدمت وفرمابرداری نہ کرے گی تو اللہ تعالٰی کی نافرمانی اور گنہگار ہوکر مرے گی۔۔۔والدین کو بھی چاہئے کے وہ اولاد بھی اولاد کو ایسی باتیں کرنے کو نہ کہیں جو ان کے بس اور اختیار اور احکام شریعت کے خلاف ہوں۔۔والدین آخر بڑے ہیں اور ان کی حٰیثیت حاکم کی ہے اولاد سے سنجیدگی اور تدبر سے کام لیا کریں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحیح معنوں میں قابل احترام اور لائق اطاعت اگر کوئی ہستی ہوسکتی ہے تو وہ والدین ہیں والدین کی اطاعت وفرمانبرداری بھی عبادت میں داخل ہے ہاں اگر والدین کوئی خلاف شرع کام کرنے کا حکم دیں تو ان کی اطاعت فرض نہیں بلکہ ان کی خلاف ورزی کی جائے گی۔۔۔ ارشاد ہوا۔۔۔

وَإِن جَاهَدَاكَ عَلَىٰ أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۖ وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًااور اگر وه دونوں تجھ پر اس بات کا دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ شریک کرے جس کا تجھے علم نہ ہو تو تو ان کا کہنا نہ ماننا، ہاں دنیا میں ان کے ساتھ اچھی طرح بسر کرنا (ربط)وہ شخص بڑا ہی بدنصیب ہے جس کو بوڑھے والدین نے جنت میں داخل نہیں کیا۔۔۔ یعنی وہ شخص بہت بڑا بدبخت ہے جس کے والدین ضعیف اور بوڑھے ہیں لیکن وہ اُن کی خدمت نہیں کرتا اس جرم کی سزا خود اس شخص کو بھکتنی پڑے گی جنت سے محرومی کی صورت میں۔۔۔ اگر اولاد اپنے ضعیف والدین کی اطاعت کرے اور انہیں ہر طرح خوش رکھے تو اللہ تعالٰی کی جانب سے انہیں انعام میں جنت ملے گی۔۔۔اس بارے میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ایک نمونہ ہیں۔۔۔ جب ان کے والد حضرت ابراھیم علیہ السلام نے کہا کہ میں نے خواب میں تمہیں ذبح کرے ہوئے دیکھا ہے بتاؤ اس بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟؟؟۔۔۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام جانتے تھے کے انبیاء کے خواب وحی الٰہی ہوتا ہے اسلئے اپنے والد سے کہا کے آپ کو جس بات کا حکم دیا گیا ہے فورا اس کی تعمیل کیجئے چنانچہ باپ بیٹے کو ذبح کرنے اور بیٹا ذبح ہونے کو خوشی خوشی تیار ہوجاتے ہیں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی یہ اطاعت وفرمانبرداری اللہ تعالٰی کو اس قدر پسند آئی کہ قیامت تک اس اطاعت کی یاد قربانی کی شکل میں ہرسال منائی جاتی رہے گی۔۔۔

عن معاوية بن جاهمة السلمي قال أتيت رسول الله صلی الله عليه وسلم فقلت يا رسول الله إني کنت أردت الجهاد معک أبتغي بذلک وجه الله والدار الآخرة قال ويحک أحية أمک قلت نعم قال ارجع فبرها ثم أتيته من الجانب الآخر فقلت يا رسول الله إني کنت أردت الجهاد معک أبتغي بذلک وجه الله والدار الآخرة قال ويحک أحية أمک قلت نعم يا رسول الله قال فارجع إليها فبرها ثم أتيته من أمامه فقلت يا رسول الله إني کنت أردت الجهاد معک أبتغي بذلک وجه الله والدار الآخرة قال ويحک أحية أمک قلت نعم يا رسول الله قال ويحک الزم رجلها فثم الجنة حدثنا هارون بن عبد الله الحمال حدثنا حجاج بن محمد حدثنا ابن جريج أخبرني محمد بن طلحة بن عبد الله بن عبد الرحمن بن أبي بکر الصديق عن أبيه طلحة عن معاوية بن جاهمة السلمي أن جاهمة أتی النبي صلی الله عليه وسلم فذکر نحوه قال أبو عبد الله بن ماجة هذا جاهمة بن عباس بن مرداس السلمي الذي عاتب النبي صلی الله عليه وسلم يوم حنين

حضرت معاویہ بن جاہمہ سلمی فرماتے ہیں کہ میں اللہ کے رسول کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ! میں نے آپ کے ساتھ جہاد میں جانے کا ارادہ کیا ہے اور میں اس جہاد میں رضاء خداوندی اور دار آخرت کا طالب ہوں۔ فرمایا افسوس تیری والدہ زندہ ہیں۔ میں نے عرض کیا جی ہاں۔ فرمایا واپس جا کر انکی خدمت کرو۔ میں دوسری طرف سے پھر حاضر ہوا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ! میں آپ کے ساتھ جہاد میں رضا خداوندی اور دار آخرت کا طالب ہوں۔ فرمایا تجھ پر افسوس ہے کیا تیری والدہ زندہ ہیں ؟ میں نے عرض کیا جی ہاں ! اے اللہ کے رسول۔ فرمایا انکے پاس واپس جا کر انکی خدمت کرو پھر میں آپ کے سامنے سے حاضر ہوا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول! میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معیت میں جہاد کا ارادہ کیا ہے اور اس سے میں رضا خداوندی کا اور دار آخرت کا طالب ہوں۔ فرمایا تجھ پر افسوس ہے کیا تیری والدہ زندہ ہیں ؟ میں نے عرض کیا جی ہاں ! اے اللہ کے رسول۔ فرمایا تجھ پر افسوس ہے والدہ کے قدموں میں جمے رہو وہیں جنت ہے (سنن ابن ماجہ)۔۔۔اس سے معلوم ہوا کے ماں کی خدمت کرنا افضل ترین عمل ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button