ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب پس پردہ کیا کوششیں ہوئیں ؟؟وہ کونسا”ٹرمپ”کارڈ تھا جو خان صاحب کھیلتے کھیلتے رہ گئے؟
محمد بلال غوری اپنے کالم میں لکھتے ہیں ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب ایک بدترین انقلاب برپا کرنے کی کوشش کی گئی مگر نہ صرف اس کے آگے بند باندھ دیا گیا بلکہ عمران خان کو بتادیا گیا کہ آپ یہ سب کچھ نہیں کر سکتے۔ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کو بتادیا گیا تھا کہ قومی اسمبلی میں عدم اعتماد پر ووٹنگ کسی صورت نہیں ہوگی بلکہ آئین کی کسی اور شق کے تحت ایک اور
رولنگ دےکراس تحریک کو مسترد کردیا جائے گا روٹ لگ گیا۔ قومی اسمبلی میں وزیراعظم کے چیمبر میں سکیورٹی کا عملہ سرگرم دکھائی دیا اور معلوم ہوا کہ کسی بھی پل اجلاس دوبارہ شروع ہوگا اور عمران خان ایوان میں تقریر کرتے ہوئے ’’ٹرمپ کارڈ‘‘پھینکیں گے۔ اگرچہ سپریم کورٹ مختصر
حکم نامے میں کسی بھی ممکنہ ’’سرپرائزـ‘‘ کی راہیں مسدود کرچکی تھی اور ویسے بھی اکثریت سے محروم ہو جانے کے بعد اختیارات محدود ہوجاتے ہیں لیکن مسند اقتدار پربراجمان شخص کا خیال تھا کہ جس طرح گورنر پنجاب چوہدری سرور کو عجلت میں فارغ کیا گیا اسی طرح کسی کو بھی نکالا جا سکتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے اپنا اقتدار بچانے کےلئے اس بارودی سرنگ پر پاؤں رکھ دیا جو اس سے پہلے بھی کئی وزرائے اعظم کے پرخچے اُڑا چکی ہے۔دیکھتے ہی دیکھتے بازی پلٹ گئی ۔رات گئے اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے کھل جانے پر کپتان کو ہرگز کوئی تشویش نہ تھی ۔ جناب چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور دیگر جج صاحبان کے عدالت پہنچ جانے پر بھی وہ ٹس سے مس نہ ہوئے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ یہ سب ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔مگر پھرکھیل میں نئے کردار شامل ہوگئے ’بناؤ اور بگاڑ‘ کی طاقت رکھنے والوں نے اپنے انداز میں بتادیا کہ تماشا ختم چکا،اب لوٹ جانے کا وقت ہے۔
یوں اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصرنے ایوان میں آکر مستعفی ہونے کا اعلان کردیا اور اجلاس کی کارروائی آگے بڑھانے کی ذمہ داری سردار ایاز صادق کو سونپ دی گئی۔اس کے بعد عدم اعتماد کی قرارداد پر ووٹنگ کی کارروائی محض اتمام حجت تھی ورنہ کپتان کلین بولڈ ہوکر پہلے ہی پویلین لوٹ چکے تھے ۔ تبدیلی سرکار سے نجات پانے پر مبارکباد دینے والے احباب جشن طرب منارہے ہیں اور بہت خوش دکھائی دے رہے ہیں ۔مگر میں ہرگز خوش نہیں ہوں ،رنجیدہ اور افسردہ ہوں۔میں ان درباری صحافیوں میں سے نہیں جو جانے والے حکمرانوں
کی رخصتی پر ٹسوے بہاتے اور آنے والے حکمرانوں کی راہ میں پلکیں بچھاتے ہیں۔ صف ماتم بچھانے یا شادیانے بجانے کا کام انہیں مبارک جن کا رزق اس سے وابستہ ہے۔میرے الفاظ گواہی دیں گے کہ بخدا نہ کبھی جانے والوں کی عیب جوئی کی نہ کبھی آنے والوں کی قصیدہ گوئی سے قرب شاہی کی تمنا رکھی۔نہ کسی کی محبت میں سرشار ہوا نہ کسی کی نفرت میں گرفتار۔عمران خان کو جس طرح لایا اور تخت پر بٹھایا گیا ،وہ غلط تھا تو انہیں نکالے جانے کا عمل بھی درست نہیں۔ ان کے آمرانہ طرز حکومت پر ہمیشہ تنقید کی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ فسطائیت کی طرف مائل تھے ۔وہ اخلاقیات،اقدار و روایات ،اصول ،مروت اوروضعداری سے عاری تھے۔نااہلی سرچڑھ کر بول رہی تھی۔معیشت تباہ و برباد ہوگئی۔اہل صحافت کو بدترین سنسرشپ کا سامنا کرنا پڑا۔ عالمی سطح پر پاکستان کی رسوائی اور جگ ہنسائی ہوئی۔آئین اور قانون سے کھلواڑ کیا گیا۔سیاست کو بے توقیر کیا گیا۔اقتدار کی ہوس نے
گویابصیرت اور بصارت چھین لی اور سیاست سے دور رہنے کا اعلان کرنے والوں کو آخری لمحات میں مداخلت پر مجبور کردیا ۔مگر کس بات کا جشن مناؤں ؟ایک اور وزیراعظم مدت پوری نہ کرسکا،اس بات کا یا اس بات کاکہ ایک اور وزیراعظم کو نہایت رسواکن انداز میں نکالا گیا ؟رکن قومی اسمبلی میاں جاوید لطیف کا شمار ان سیاسی کارکنوں میں ہوتا ہے جنہوں نے ہر دور میں کلمہ حق کہا۔ شاید یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگی کہ جب ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پی این اے کی تحریک چلی تو میاں جاوید لطیف پیش پیش رہے اور دورانِ احتجاج گرفتار ہوئے۔مگر جب مارشل لاء لگ گیا اور بھٹو کو پھانسی دیدی گئی تو میاں جاوید لطیف ایک بار پھر سڑکوں پر نکلے اور آمریت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے جیل گئے۔3اپریل کو اتوار کے دن قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پرووٹنگ ہونا تھی تو میں ہفتہ کی شام اسلام آباد پہنچ گیا تاکہ اس تاریخی اجلاس کی کارروائی دیکھ سکوں ۔ ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب راولپنڈی میں چند دیگر دوستوں کے ہمراہ میاں جاوید لطیف سے طویل گپ شپ رہی،اس دوران انہوں نے کہا، غوری صاحب! سیاسی کارکن کی حیثیت سے میں خوش نہیں ہوں کیونکہ عمران خان کی ہٹ دھرمی کے نتیجے میں وہ قوتیں جو غیر جانبدار تھیں ،آخری وقت میں انہیں متحرک ہونا پڑا۔ میں بھی سویلین بالادستی پر یقین رکھنے والے ایک جمہوریت پسند شہری کی حیثیت سے آج خوش نہیں ہوں بلکہ افسردہ ہوں ۔
کاش عمران خان تھوڑی بہت اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرتے ،اپنا نہ سہی وزارت عظمیٰ کے منصب کا وقار ملحوظ خاطر رکھتے تو عزت سے رخصت ہوسکتے تھے۔بقول ان کے انہیں تین آپشن دیئے گئے تھے۔ استعفیٰ ،عدم اعتماد کا سامنا یا پھر انتخابات مگر انہوں نے از خود چوتھے راستے کا انتخاب کیا اور وہ تھا ذلت بھرے انداز میں وزیراعظم ہاؤس سے رُخصتی کا۔ آپ اگر یہ سوچ رہے ہیں کہ عمران خان کو نکال دینے سے ملک میں حقیقی جمہوریت آگئی ہے ،ووٹ کو عزت مل گئی ہے یا سویلین بالادستی کا خواب پورا ہوگیا ہے تو اس خوش فہمی سے نکل آئیں ۔’’چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی‘‘ کے مصداق ابھی ہمیں بہت سا سفر طے کرنا ہے تاکہ تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزیراعظم کو رخصت کرنے کیلئے سپریم کورٹ کا دروازہ نہ کھٹکھٹانا پڑے،آدھی رات کو عدالتیں نہ کھلوانی پڑیں ، غیرسیاسی طاقتوں کو حرکت میں نہ آنا پڑے،پارلیمنٹ کے باہر قیدیوں کو لے جانے والی گاڑی کھڑی کرکے وزیراعظم کو نہ ڈرانا پڑے۔