اسلامک کارنر

روزے کی فضیلت اور اہمیت

روزے کو عربی میں صوم کہتے ہیں ۔ صوم کے لفظی معنی رک جانے اور باز رہنے کے ہیں ۔قرآن میں کہیں کہیں روزے کے لئے صبر کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے جس کے معنی ضبط نفس ، ثابت قدمی اور استقلال کے ہیں ۔ اصطلاح میں روزے کے معنی صبح سے غروب آفتاب تک خالص اللہ کے لئے کھانے پینے اور دیگر ممنوعات شرعیہ سے رکنے کے ہیں ۔ قرآن نے روزے کا مقصد حصول تقوی بیان کیا ہے ۔چنانچہ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے کہ ”اے ایمان والو!تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تا کہ تم تقوی شعار بن جاﺅ ۔ “ تقوی دل کی اس کیفیت کا نام ہے جس میں نیک باتوں کی طرف رغبت اور بری باتوں سے نفرت پیدا ہو جاتی ہے ۔ انسانی خواہشات چونکہ انسان کو برائی کی طرف لے جاتی ہے اس لئے ان خواہشات پر کنٹرول حاصل کرنے کے لئے روزے کا نسخہ تجویز کیا گیا ہے ۔ روزہ رکھنے سے حیوانی جذبات دب جاتے ہیں اور انسان کی خواہشات کمزور پڑ جاتی ہے ۔ اس لئے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان نوجوانوں کو جو مالی مجبوریوں کے باعث نکاح کرنے سے معذور ہوں یہ مشورہ دیاہے کہ وہ روزے رکھیں ۔ آپ نے فرمایا کہ روزہ شہوت کو توڑنے اور کم کرنے کے لئے بہترین علاج ہے ۔

حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ابتدا میں مسلمانوں کو ہر مہینے صرف تین دن روزے رکھنے کی ہدایت کی تھی مگر یہ روزے فرض نہ تھے ۔ پھر ۲ہجری میں قرآن میں حکم نازل ہوا کہ رمضان کا پوار مہینہ روزے رکھو ۔ بعض لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہو گا کہ روزوں کے لئے رمضان ہی کے مہینے کی تخصیص کیوں ہے ۔ قرآن نے اس سوال کا جواب خود ہی دے دیا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے ۔ ”رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے ۔ جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لئے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جوراہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہے ۔ پس جو شخص اس مہینے کو پائے اس کو لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے ۔“ (البقرہ175 ( یعنی رمضان کو روزوں کے لئے اس لئے مختص کیا گیا ہے کہ اس مہینے میں قرآن نازل ہوا تھا لہذا رمضان کا پورا مہینہ رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے ۔ قرآن کی اہمیت محتاج بیان نہیں ۔ یہ خداکی آخری کتاب ہے جو بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے اتاری گئی ۔ یہ حق و باطل کو نکھار کر الگ الگ کر دیتی ہے ۔ لہذا اللہ تعالی نے حکم دیا کہ اس مہینے میں روزے رکھ کر ”نزول قرآن “ کی سالگرہ منایا کرو اور قرآن کو زیادہ سے زیادہ سمجھنے کی کوشش کیا کرو ۔ اس لئے اس مہینے میں تلاوت قرآن معمول سے زیادہ کی جاتی ہے اور ہر مسلمان کم از کم ایک مرتبہ قرآن ختم کرتا ہے ۔ نماز تراویح میں بھی قرآن پڑھا جاتا ہے اور ویسے بھی اس کی تلاوت کی جاتی ہے بعض روایا ت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم رمضان کے مہینے میں حضرت جبرائیل علیہ السلام سے قرآن کا دور کیا کرتے ہیں ۔ روزہ دو باتوں پر منحصر ہے ۔ (1) صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک نہ کچھ کھایا جائے اور نہ پیا جائے ۔ (2)صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک جنسی اختلاط سے پرہیز کیا جائے ۔

اگر ہم غور کریں تو معلوم ہو گا کہ انسانی خواہشات میں سے یہی دو خواہشات سب سے زیادہ پر زور اور سر کش ہیں ۔ یہ صرف خواہشات ہی نہیں بلکہ انسان کی فطری ضرورتیں بھی ہیں اور انہی پرنسل انسانی کی بقاءبھی منحصر ہے ۔ لہذا اسلام نے انہیں کنٹرول میں لانے کے لئے ایک ماہ کا تربیتی کورس مقرر کر دیا ہے ۔ اب اس پورے مہینے میں دن بھر ہم اپنی ان خواہشات کو محض خدا کی خوشنودی کے لئے قابو میں رکھتے ہیں ۔ اگرچہ ہم چھپ کر ان خواہشات کی تکمیل کرسکتے ہیں لیکن محض اس لئے ایسا نہیں کرتے کہ یہ ہمارے خدا کا حکم ہے اسی کو تقوی کہتے ہیں اور یہی چیز تمام عبادات کی جڑ اور اخلاق کی بنیاد ہے ۔ اخلاص اور بے ریائی روزے کی بنیادی خصوصیات ہیں ۔ اسی لئے ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔ ”روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا دونگا ۔“ یعنی میرا بندہ محض میری خوشنودی کے لئے اپنی خواہشات کو قابو میں رکھتا ہے ۔ سب کچھ موجود ہوتا ہے لیکن نہ کھاتا ہے اور نہ پیتا ہے ۔ میاں بیوی اکٹھے ہوتے ہیں لیکن محض میری خاطر ایک دوسرے کے قریب نہیں جاتے ۔ جب میری خاطر وہ اپنی خواہشات کی قربانی دیتے ہیں تو اب میرا فرض ہے کہ میں انہیں بڑھ چڑھ کر بدلہ دونگا ۔ جب روزے کا بنیادی مقصد ہی تقوی اور خدا خوفی کا حصول ہے تو یہ بات از خود ثابت ہو گی کہ باقی جن باتوں سے بھی اللہ نے منع فرمایا ہے روزہ دار ان سے بھی مجتنب رہے لیکن تولنے لگے تو کم تولے اور ناپنے لگے تو کم ماپے ۔ یا اللہ کے جو دیگر احکام ہیں ۔

ان کی خلاف ورزی کرے ۔ اگر وہ ایسا کرے تو اس کا روزہ روزہ نہیں بلکہ فاقہ کہلائے گا ۔ اس لئے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ۔ ” جس شخص نے روزے کی حالت میں جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو وہ جان لے کہ اللہ کو اس بات کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ بھوکار ہے یا پیاسا۔“ (بخاری ۔ کتاب الصوم)۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ صرف کھانے پینے اور ازدواجی تعلقات سے اجتناب کا نام نہیں ہے بلکہ روزہ دار کے لئے یہ بھی لازم ہے کہ باقی معاملات میں بھی اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی کوشش کرے ایک اور حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس بات کی مزید وضاحت فرمائی ہے ۔ آپ فرماتے ہیں۔ ”کتنے ہی روزے دار ہیں جن کے پلے روزے سے پیا س کے سوا اور کچھ نہیں پڑتا ۔“ (دارمی شریف( اس حدیث میں بھی اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ روزے کا مقصد صرف بھوکا پیاسا رہنا نہیں بلکہ تقوی و طہارت کا حصول ہے اگر روزہ دار تقوی کے حصول میں کامیاب ہو گیا تو اس کی بھوک پیاس اس کے کام آگئی ۔ لیکن اگر اس کی اخلاقی حالت میں کوئی فرق نہ پڑا تو اس کا بھوکا اور پیاسا رہنا بے کار گیا ۔ اگرچہ روزہ اصلاح نفس کے لئے ضروری ہے لیکن اس میں سختی یا فراط سے منع کیا گیا ہے ۔ بعض لوگ اعتدال کو ملحوظ نہیں رکھتے اور اپنے آپ کو بے جا سختی میں مبتلا کرنا نیکی سمجھتے ہیں ۔ یہ روش پسندیدہ نہیں ہے ۔ عرب میں صوم و صال کا طریقہ جاری تھا یعنی کئی کئی دن متصل روزے رکھتے تھے ۔ صحابہ نے بھی اس کا ارادہ کیا لیکن آپ نے سختی سے روک دیا ۔ قبیلہ باہلہ کے ایک صاحب حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر واپس گئے سال بھر کے بعد دوبارہ آئے تو پہچانے نہ جاتے تھے ۔

حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پوچھا کہ تم تو نہایت خوش جمال تھے ۔ تمہاری صورت کیوں بگڑ گئی ؟ انہوں نے عرض کیا ”جب سے آپ سے رخصت ہوا ہوں متصل روزے رکھ رہا ہوں ۔ آپ نے فرمایا ۔ اپنی جان کو کیوں عذاب میں ڈال رکھا ہے ۔ رمضان کے علاوہ مہینے میں ایک دن کا روزہ کافی ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک مرتبہ صحابہ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ میں تم سے زیادہ خدا سے ڈرتا ہوں ۔ لیکن روزہ بھی رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا ۔ نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں جو شخص میرے طریقہ پر نہیں چلتا ۔ وہ میرے گروہ سے خارج ہے ۔ سفر میں اللہ تعالی نے خود روزہ چھوڑنے کی اجازت دی ہے ۔ اگر سفر میں روزہ رکھنے سے تکلیف کا احتمال ہو تو روزہ چھوڑ دینا چاہئے ۔خود حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے سفر میں کبھی روزہ رکھا ہے اور کبھی نہیں رکھا ۔ لیکن یہ بات مناسب نہیں کہ سفر میں روزہ رکھ کر آپ باقی لوگوں کے لئے تماشا بن جائیں ۔ ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سفر میں تھے ۔ راستے میں ایک شخص کو دیکھا کہ بھیڑ لگی ہوئی ہے اور لوگوں نے اس پر سایہ تان رکھا ہے ۔ آپ نے پوچھا ۔ کیا بات ہے ؟لوگوں نے بتایا کہ اس شخص نے روزہ رکھا ہوا ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ سفر میں اس طرح روزہ رکھنا کچھ ثواب کی بات نہیں ہے ۔ اعتکاف کا مطلب یہ ہے کہ آدمی رمضان کا آخری عشرہ مسجد میں ہی رہے اور دن رات اللہ کے ذکر میں مشغول رہے ۔ اعتکاف کی حالت میں آدمی انسانی حاجات کے لئے مسجد سے باہر جا سکتا ہے مگر اس کے لئے لازم ہے ۔

کہ وہ اپنے آپ کو شہوانی لذتوں سے روکے رکھے ۔ اگر چاند انتیس تاریخ کو نظر آ جائے تو معتکف کا یہ عشرہ نو روز کا بھی ہو سکتا ہے ۔ کیوں کہ شوال کا چاند طلو ع ہوتے ہی اعتکاف ختم ہو جاتا ہے ۔ رمضان کا آخری عشرہ اس لئے بھی اہمیت رکھتا ہے کہ اس میں لیلتہ القدر آتی ہے ۔ یہ وہ برکت والی رات ہے جسے قرآن ایک ہزار مہینوں سے بڑھ کر قرار دیتا ہے ۔ قرآن نے لیلة القدر کی فضلیت ان الفاظ میں بیان کی ہے ارشاد ہوتا ہے ۔ ”ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل کیا ہے اور تمہیں کیا پتا کہ شب قدر کیا ہے ۔ شب قدر ہزاروں مہینوں سے زیادہ بہتر ہے ۔ اس رات کو فرشتے اور روح الامین اپنے رب کے اذن سے ہر حکم لے کر نازل ہوتے ہیں ۔ وہ رات سراسر سلامتی ہے طلوع فجر تک ۔“ لیلة القدر بڑی مبارک رات ہے ۔ اس رات غار حرا میں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہوئی ۔ قدر کے معنی بعض مفسرین نے تقدیر کے لئے ہیں ۔ یعنی یہ وہ رات ہے کہ جس میں اللہ تعالی تقدیر کے فیصلے نافذ کرنے کے لئے فرشتوں کے سپرد کر دیتا ہے ۔ اس کی تائید سورةدخان کی یہ آیت بھی کرتی ہے ۔ ”اس رات میں ہر معاملے کا حکیمانہ فیصلہ صادر کر دیا جاتا ہے ۔ “ دوسرے مفسرین کے نزدیک قدر سے مراد عظمت و شرف ہے ۔ یعنی وہ رات جو بڑی عظمت و شرف والی رات ہے ۔

سورة القدر میں بھی اسے ہزار مہینوں سے بہتر قرار دیا گیا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ شب قدر رمضان کی آخری دس راتوں میں سے ایک طاق رات ہے ۔ اکثر لوگ ستائیسویں رمضان کو لیلتہ القدر سمجھتے ہیں ۔ اس رات کا تعین اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اس لئے نہیں کیا گیا ہے تا کہ شب قدر کی فضیلت سے فیض اٹھانے کے شوق میں لوگ زیادہ سے زیادہ راتیں عبادت میں گزاریں اور کسی ایک رات پر اکتفانہ کریں ۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ۔ ”جو شخص شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور اللہ کے اجر کی خاطر عبادت کے لئے کھڑا رہا ہے ۔ “ روزہ انسان کو بہت سے گناہوں سے محفوظ بھی رکھتا ہے اور بہت سے گناہوں کا کفارہ بھی ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ۔ ”روزہ ڈھال ہے ۔“ یعنی جس طرح ڈھال انسان کو دشمن کے حملوں سے محفوظ کر دیتی ہے اس طرح روزہ بہت سے گناہوں سے بچا لیتا ہے ۔ دوسری طرف اگر کسی سے گناہ ہو جائے تو روزہ کا کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو کھانا کھلائے یا تین دن کے روز ے رکھے ۔ اسی طرح حج کے دوران کسی جانور کا شکار کر بیٹھے تو اس کا کفارہ قربانی کی صورت میں مقرر ہے لیکن اگر قربانی نہ دے سکے تو قربانی کے بدلے روزے رکھنے کا حکم ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ روزہ گناہ سے بچاتا ہی نہیں بلکہ بعض گناہوں کو معاف بھی کرا دیتا ہے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button