اسلامک کارنر

ق.ب.ر کا ع.ذ.ا.ب

محترم بزرگو اور عزیزو! ہم میں سے بہت لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انسان جب مر جاتا ہے اور قبر میں دفن کر دیا جاتاہے تو وہ گل سڑ کر مٹی میں مل جاتاہے اور ہمیشہ کے لیے ختم ہوجاتاہے اور اس کی کوئی چیز باقی نہیں رہتی اور مرنے کے بعد اسے کسی اور چیز کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔میرے بھائیو! یہ بڑی خطرناک غلطی ہے۔ حقیقت یہ ہے

کہ انسان مرنے کے بعد ایک نئی زندگی میں داخل ہوتا ہے۔ یہ زندگی برزخ کی زندگی کہلاتی ہے اور برزخ کے بعد آخرت کی زندگی ہوگی جو ہمیشہ رہے گی کبھی ختم نہ ہوگی۔مرنے کے بعد جو کچھ پیش آ گا اسے قرآن حکیم اور احادیث نبویہ میں وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیاہے۔ آج کے خطبے میں مرنے کے بعد جوجو چیزیں پیش آئیں گی انہیں میں سرسری طور پر بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔ انسان جب مر جاتاہے اور اسے لے جا کر قبر میں دفن کردیا جاتا ہے تو سب سے پہلے اسے قبر کے فتنے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ قبر کے تصور ہی سے اہل ایمان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے غلام ہانی کا بیان ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جب کسی قبر کے پاس کھڑے ہوتے تو اتنا روتے کہ آنسوؤں سے آپ کی داڑھی تر ہوجاتی۔

ان سے پوچھا گیا کہ جب جنت اور دوزخ کا ذکر کیا جاتا ہے تو آپ اتنا نہیں روتےجتنا قبر پر کھڑے ہو کر روتے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: (إن القبر أول منازل الآخرۃ، فإن نجا منہ أحد فما بعدہ أیسر منہ و إن لم ینج منہ فما بعدہ أشد منہ)قبر آخرت کی منزلوں میں سے پہلی منزل ہے۔ اگر انسان اس میں نجات پا گیا تو بعد میں آ نے والی منزلیں اس سے زیادہ آسان ہوں گی۔ اور اگر وہ اس میں نجات نہ پا سکا تو بعد میں آنے والی منزلیں اس سے زیادہ سخت ہوں گی۔اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم برابر ہر نماز کے بعد عذاب قبر سے پناہ مانگتے تھے اور یہ دعا پڑھتے تھے :(اللھم إنی أعوذ بک من عذاب القبر)“اے اللہ! میں عذاب قبر سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔”اور لوگوں کو بھی آپ اس کی تلقین فرماتے، آپ نے فرمایا :(أیھا الناس استعیذوا باللہ من عذاب القبر فإن عذاب القبر حق)“لوگو! قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ چاہو کیونکہ عذاب قبر بر حق ہے۔”

صحیحین میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (إن العبد إذا وضع فی قبرہ وتولی عنہ أصحابہ و إنہ یسمع قرع نعالھم أتاہ ملکان فیقعدانہ فیقولان ما کنت تقول فی ھذا الرجل لمحمد صلی اللہ علیہ وسلم فأما المومن فیقول أشھد أنہ عبد اللہ ورسولہ فیقال لہ انظر الی مقعدک من النار قد أبدلک اللہ بہ مقعدا من الجنۃ فیراھما جمیعا وأما المنافق والکافر فیقال لہ ما کنت تقول فی ھذا الرجل فیقول لا أدری کنت أقول ما یقول الناس فیقال لا دریت ولا تلیت ویضرب بمطارق من حدید ضربۃ فیصیح صیحۃ یسمعھا من یلیہ غیر الثقلین)“بےشک بندہ جب اپنی قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اسے دفنانے والے اس سے پیٹھ پھیر لیتے ہیں، اس وقت وہ ان کے جوتوں کی آہٹ سن رہا ہو تا ہے، تو دو فرشتے اس کے پاس آتے ہیں،

اور اسے بیٹھاتے ہیں، پھر اس سے پو چھتے ہیں اس شخص (محمد صلی اللہ علیہ وسلم )کے متعلق تم کیا کہتے ہو؟ مومن کہتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ تو اس سے کہا جاتا ہے کہ تم جہنم میں اپنے ٹھکانے کو دیکھو۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلے تمہیں جنت میں ٹھکا نا دیا ہے۔ تووہ اندونوں ٹھکا نوں کو دیکھتا ہے۔ رہا منافق اور کافر تو اس سے کہا جاتا ہے : تم اس شخص (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کے متعلق کیا کہتے ہو؟ وہ کہتا ہے مجھے کچھ پتہ نہیں، میں تو وہی کہتا تھا جو لوگ کہتے تھے۔ تو اس سے کہا جاتا ہے: نہ تونے جاننے کی کوشش کی اور نہ ہی تونے قرآن پڑھا۔ پھر اس کو لوہے کے ہتھیار سے اس زور سے مارا جاتاہے کہ اس کی چیخیں نکل آتی ہیں، جنہیں وہ ساری چیزیں سنتی ہیں جو اس کے قریب ہوتی ہیں

سوائے انسان اور جنات کے۔” “صحیح مسلم کی ایک روایت میں حضرت قتادہ بیان کرتے ہیں کہ ہم سے یہ بھی ذکر کیاگیا ہے کہ مومن کی قبر کو ستر ہاتھ تک کشادہ کردیا جاتا ہے اور قیامت تک کے لیے اس میں نعمتیں اور شادابیاں بھر دی جاتی ہیں۔ صحیح احادیث میں ہے کہ مومن جو ان دونوں فرشتوں کے سوالوں کا صحیح جواب دے دیتا ہے تو آسمان سے ندا آتی ہے کہ میرے بندے نے سچ کہا اس کے لیے جنت سے بستر لا کر بچھا دو اور اسے جنت کا لباس پہنا دو اور اس کے لیے جنت کا ایک دروازہ کھول دو۔ چنانچہ اس کے پاس جنت کی خوشبو اور نعمتیں آتی رہتی ہیں اور اس کی قبر کو حد نگاہ تک وسیع کر دیا جاتا ہے۔ اس کے برخلاف کافر ومنافق جو ان دونوں فرشتوں کے سوالوں کا جواب نہیں دے پاتا ہے،

تو آسمان سے ایک ندا آتی ہے اس کے لیے جہنم کا بستر بچھا دو اور اس کے لیے جہنم کا ایک دروازہ کھول دو۔ چنانچہ اس سے جہنم کی بدبو اور گرم ہوا اس کے پاس آتی رہتی ہے، اور اس کی قبر کو اتنا تنگ کر دیا جاتا ہے کہ اس کی دونوں پسلیاں باہم مل جاتی ہیں۔”حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بنو نجار کے ایک باغ میں تھے۔ آپ اپنے خچر پر سوار تھے کہ اچانک خچر بدکنے لگا قریب تھا کہ وہ آپ کو نیچے گرادے۔ ہمیں وہاں کچھ قبریں نظر آئیں۔ آپ نے پوچھا ان قبر والوں کو تم میں سے کوئی جانتا ہے؟ تو ہم میں سے ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول میں جانتا ہوں۔ آپ نے پوچھا بتاؤیہ کب فوت ہو تھے؟

اس نے کہا کہ شرک کی حالت ہی میں مر گئے تھے۔ تو آپ نے فرمایا: “إن ھذہ الأمۃ تبتلی فی قبورھا فلو لا أن لا تدافنوا لدعوت اللہ أن یسمعکم من عذاب القبر الذی أسمع منہ” (مسلم: 2867)“بےشک یکہ لوگ اپنی قبروں میں آزمائے جا رہے ہیں۔ مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ تم مردوں کو دفنانا چھوڑ دوگے، تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا کہ وہ تمہیں قبر کے عذاب کو سنا دے جو میں سنتا ہوں۔”عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(إن الموتی لیعذبون فی قبورھم حتی إن البھائم لتسمع أصواتھم)“بےشک مردوں کو ان کی قبروں میں عذاب دیا جاتا ہے۔ یہاں تک چوپا ان کی آواز یں سنتے ہیں۔”یاد رکھئے، عذاب قبر سے مراد عذاب برزخ ہے جو بھی اس کا مستحق ہوگا

اسے یہ عذاب چکھنا پڑے گا۔ خواہ اسے قبر میں دفن کیا جائے یا آگ میں جلا دیا جائے یادریا میں ڈال دیا جائے یا کسی درندے نے اسے کھا لیا ہو۔ کوئی بھی صورت ہو اسے یہ عذاب پہنچ کر رہےگا۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادرہے۔ اسے کوئی چیز عاجز نہیں کر سکتی۔لہذا میرے بھا ئیو! ہمیں قبر کے عذاب سے بچنے کی فکر کرنی چاہئے۔ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک جنازے میں تھے آپ قبر کے کنارے بیٹھے رو رہے تھے، یہاں تک کہ آپ کے آنسوؤں سے سامنے کی مٹی تر ہو گئی۔ پھر آپ نے فرمایا: (یا إخوانی لمثل ھذا فاعدوا)“اے میرے بھائیو ! اس طرح کے دن کے لیے تم بھی تیاری کرلو۔”لہذا میرے بھائیو !

قبر کی زندگی کے لیے تیاری کرنی چاہئے، اور اس دن کی تیاری ایمان اور عمل صالح کے ذریعہ ہی ہوسکتی ہے۔ قبر میں انسان کے ساتھ اس کا عمل جائےگا، اور جیسا اس کا عمل ہوگا اسی کے مطابق اس کے ساتھ سلوک کیا جائےگا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:“یتبع المیت ثلاثۃ أھلہ و عملہ و مالہ فیرجع إثنان و یبقی واحد یرجع أھلہ و مالہ و یبقی عملہ” (متفق علیہ)“میت کے ساتھ اس کے پیچھے تین چیزیں جاتی ہیں؛ اس کے گھر والے، اس کا عمل اور اس کا مال۔ پھر دو چیزیں واپس لوٹ آتی ہیں اور ایک ہی چیز اس کے ساتھ باقی رہتی ہے، اس کے گھر والے اور اس کا مال واپس آجاتا ہے۔ اور اس کا عمل اس کے ساتھ باقی رہتاہے۔”اس لیے اللہ کے بندو! ہم میں سے ہر ایک پر یہ گھڑی آنے والی ہے۔

لہذا ہم میں سے کسی کو بھی اس سے غافل نہیں رہنا چاہئے۔ ایمان کے ساتھ ہمیں کثرت سے نیک اعمال کرتے رہنا چاہئے۔ کب ہم پر یہ گھڑی آجائے، ہم میں سے کسی کو معلوم نہیںمیرے بھائیو! قبر میں دفنائے جانے کے بعد اس سے اٹھائے جانے کا مرحلہ پیش آئےگا۔ ہم میں سے بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم مرکرمٹی میں مل جائیں گے۔ کون ہمیں دوبارہ زندہ کرسکےگا؟ میرے بھائیو یاد رکھو، وہ ذات ہمیں دوبارہ زندہ کرنے پر پوری طرح قادر ہے جس نے ہمیں پہلی بار بےجان نطفے سے پیدا کیا ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:( أَوَلَمْ يَرَ الْإِنْسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاهُ مِنْ نُطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُبِينٌ ٧٧ وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَنَسِيَ خَلْقَهُ قَالَ مَنْ يُحْيِي الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌ ٧٨ قُلْ يُحْيِيهَا الَّذِي أَنْشَأَهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ) [يس:77 – 79]“کیا انسان کو اتنا بھی معلوم نہیں کہ ہم نے اسے نطفے سے پیدا کیا ہے؟ پھر یکایک وہ صریح جھگڑالو بن بیٹھا۔ اور وہ ہمارے لئے مثال بیان کرنے لگا

اور اپنی (اصل) پیدائش کو بھول گیا، کہنے لگا ان گلی سڑی ہڈیوں کو کون زنده کر سکتا ہے۔آپ کہہ دیجئے! کہ انہیں وه زنده کرے گا جس نے انہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے، جو سب طرح کی پیدائش کا بخوبی جاننے والا ہے۔” قبروں سے اٹھائے جانے کے بعد سارے لوگ میدان حشر میں جمع کیے جائیں گے۔ اور اللہ کے سامنے حساب وکتاب کے لیے پیش کیے جائیں گے۔ارشاد باری ہے:( وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَإِذَا هُمْ مِنَ الْأَجْدَاثِ إِلَى رَبِّهِمْ يَنْسِلُونَ ) [يس: 51]“تو صور کے پھونکے جاتے ہی سب کے سب اپنی قبروں سے اپنے پروردگار کی طرف (تیز تیز) چلنے لگیں گے۔”میدان محشر میں لوگ ننگے بدن، ننگے پاؤں اور غیر مختون جمع کیے جائیں گے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے

کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: یحشر الناس یوم القیامۃ حفاۃ عراۃ غرلا قلت یا رسول اللہ النساء والرجل جمیعا ینظر بعضھم إلی بعض؟ قال: یا عائشہ الأمر أشد أن ینظر بعضھم إلی بعض” (مسلم)“قیا مت کے دن لوگ ننگے پاؤں، ننگے بدن اور غیر مختون حالت میں جمع کیے جائیں گے۔ میں نے پوچھا اے اللہ کے رسول! مرد اور عورت سب ایک دوسرے کو دیکھیں گے؟ آ پ نے فرمایا : اےعائشہ! اس روز کا معاملہ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے سے کہیں زیادہ سخت ہوگا۔» مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ میدانِ محشر کی طرف جاتے وقت لوگوں کے تین گروہ ہوں گے؛ ایک گروہ سواروں کا ہوگا، دوسرا گروہ پیدل چلنے والوں کا ہوگا اور تیسرا گروہ ان لوگوں کا ہوگا

جو اوندھے منہ گھسیٹے جائیں گے۔اس روایت میں ہے:(تأتون یوم القیامۃ وعلی وجوھکم الفدام أول ما یعرب عن أحدکم فخذہ)“تم قیا مت کے دن اس حال میں آوگے کہ تمہارے منہ بند کر دیے گئے ہوں گے اور سب سے پہلے تمہاری ران تمہارے بارے میں بیان دےگی۔” (اس روایت کی سند حسن ہے)قرآن کریم نے اس وقت کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے:( وَلَا يَسْأَلُ حَمِيمٌ حَمِيمًا ١٠ يُبَصَّرُونَهُمْ يَوَدُّ الْمُجْرِمُ لَوْ يَفْتَدِي مِنْ عَذَابِ يَوْمِئِذٍ بِبَنِيهِ١١وَصَاحِبَتِهِ وَأَخِيهِ ١٢ وَفَصِيلَتِهِ الَّتِي تُؤْوِيهِ ١٣ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ يُنْجِيهِ ١٤ كَلَّا إِنَّهَا لَظَى ١٥نَزَّاعَةً لِلشَّوَى ) [المعارج: 16]

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button