اسلامک کارنر

کیا تراویح کی نماز عورتوں پر بھی لازم ہے ؟

کیا نمازِ تراویح مستورات کے لیے ضروری نہیں؟کیامستورات کوجماعت کے ساتھ پڑھنا ضروری ہے؟خواتین کے لیے بھی تراویح پڑھنا سنتِ مؤکدہ ہے اور لازم ہے،البتہ جماعت سے نہ پڑھیں، بلکہ گھر میں ہی انفرادی طور پر پڑھیں،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کی نماز کو گھر اور گھر میں بھی اندرونی حصہ میں ادا کرنے کو افضل قرار دیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چاہت اور احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اس پر اتفاق ہوا کہ عورتیں گھروں میں نمازیں ادا کریں ؛ اس لیے عورتوں کے لیے ضروری ہے کہ فرض نمازوں کی طرح تراویح بھی گھر ہی میں ادا کریں۔ نماز فرض ہو یا نفل عورت کا گھر میں نماز ادا کرنا مسجد میں نماز ادا کرنے سے افضل ہے، اور اسی حکم میں تراویح کی نماز بھی شامل ہے۔دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کہتے ہیں: عورت کی گھر میں نماز مسجد میں نماز ادا کرنے سے بہتر ہے، فرض ہو یا نفل یا تراویح کوئی بھی نماز ہو۔عورت کو جتنا قرآن مجید یاد ہو اتنا ہی پڑھ کر تراویح اپنے گھر میں ادا کرے اور اس کیلیے سنت طریقے کا اہتمام حسب استطاعت کرے، چنانچہ اگر مکمل قرآن مجید یاد ہے اور وہ نماز لمبی بھی کر سکتی ہے

تو پھر وہ گیارہ یا تیرہ رکعات نماز ادا کرے ، ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرے اور آخر میں وتر پڑھے اور اگر قیام لمبا نہ کر سکتی ہو تو حسب توفیق رکعات پڑھے اور جب یہ سمجھے کہ مجھ میں اتنی ہی استطاعت ہے تو پھر ایک رکعت وتر ادا کر لے۔دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کہتے ہیں تراویح کی نماز گیارہ یا تیرہ رکعت ہے، اس کیلیے سنتِ نبوی یہ ہے کہ ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرے اور آخر میں ایک وتر ادا کر لے، اگر کوئی 20 یا اس سے بھی زیادہ ادا کرتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے رات کی نماز دو ، دو رکعت ہے، چنانچہ جب تمہیں طلوعِ فجر ہونے کا خدشہ ہو تو ایک رکعت پڑھ لو اس سے گزشتہ ساری نماز کی تعداد وتر ہو جائے گی اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کی نماز کیلیے رکعات مقرر نہیں فرمائیں۔عورت کیلیے گھر میں تراویح پڑھنے کیلیے حافظہ قرآن ہونا ضروری نہیں ہے، بلکہ عورت چاہے مکمل قرآن کی حافظ ہو یا مناسب مقدار میں قرآن مجید کے پارے یاد ہوں وہ گھر میں تراویح کی نماز ادا کر سکتی ہے۔اور اگر کوئی شخص مرد ہو یا عورت اسے گھر میں نماز پڑھنے کیلیے قوت حافظہ ساتھ نہیں دیتی تو وہ قرآن مجید سے دیکھ کر بھی پڑھ سکتا ہے

۔شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں اگر امام ہونے کی صورت میں ضرورت محسوس ہو تو قرآن مجید سے دیکھ کر بھی پڑھ سکتا ہے، اسی طرح عورت بھی دیکھ کر قرآن مجید کی تلاوت کر سکتی ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے اگر گھر میں خواتین کی کافی تعداد ہو تو ان کے ساتھ باجماعت تراویح ادا کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، امامت کروانے والی خاتون عورتوں کے درمیان میں کھڑی ہو کر قرآن کی تلاوت کرے گی، اور اگر قرآن مجید سے دیکھ کر تلاوت کرے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں: بہتر تو یہی ہے کہ عورت اپنے گھر میں ہی نماز پڑھے، چاہے نمازِ تراویح کیلیے قریب مسجد میں انتظام بھی ہو، چنانچہ اگر عورت گھر میں با جماعت نماز تراویح ادا کر لیتی ہے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، اس صورت میں اگر عورت کو قرآن مجید کا تھوڑا حصہ ہی یاد ہو تو اسے قرآن مجید سے دیکھ کر تلاوت کرنے کی اجازت ہے۔ مسجد میں مردوں کی جماعت کے ساتھ عورت کیلیے تراویح یا دیگر نمازیں پڑھنے میں کوئی حرج ہے، بلکہ اگر لمبے قیام والی نمازوں میں عورت کا مسجد میں نماز با جماعت ادا کرنا زیادہ جوش اور جذبے کا باعث ہو تو یہ اچھا عمل ہے، اگرچہ عورت کا گھر میں نماز ادا کرنا چاہے نماز فرض ہو یا نفل مسجد میں نماز ادا کرنے سے اصولی طور پر بہترین عمل ہے۔چنانچہ اس بارے میں شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: عورت کیلیے مسجد میں نماز تراویح کی ادائیگی کا کیا حکم ہے؟ انہوں نے جواب دیا: اصولی طور پر عورت کی گھر میں نماز افضل اور بہتر ہے، لیکن مسجد میں باپردہ حالت میں با جماعت نماز ادا کرنے سے زیادہ فائدہ ہوگا کہ اس سے دل میں نمازیں پڑھنے کا شوق پیدا ہوتا ہے یا اسے علمی دروس سننے کا موقع ملتا ہے تو الحمد اللہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے،اور وہ اس اعتبار سے بھی بہتر ہے کہ اس میں عظیم فوائد ہیں اور نیکی کی ترغیب پیدا ہوتی ہے۔اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button