خاتون کا ہسپتال میں زیادتی کا دعویٰ، تحقیقات ہوئیں تو ایسا انکشاف کہ ہر کوئی دنگ رہ گیا

برطانیہ کے ایک ہسپتال میں ’صرف خواتین‘ کے وارڈ میں گزشتہ سال ایک خاتون کو جنسی زیادتی کا نشانہ بناڈالا گیا تھا اور جب خاتون نے شکایت کی تو ہسپتال کے عملے نے یہ کہہ کر اس کا الزام مستر د کر دیا کہ اس وارڈ میں کوئی مرد آتا ہی نہیں۔ تاہم اب اس واقعے کے ایک سال بعد ہسپتال کے عملے نے ایک حیران کن انکشاف کر دیا گیا ہے۔
"میل آن لائن” کے مطابق پولیس کی طرف سے تاحال اس واقعے کی تحقیقات کی جا رہی تھیں۔ جن میں گزشتہ دنوں ہسپتال کے عملے کی طرف سے انکشاف کیا گیا ہے کہ جس رات خاتون کے ساتھ جنسی زیادتی کا واقعہ پیش آیا، اس رات ایک ’ٹرانس جینڈر‘ خاتون اس وارڈ میں موجود تھی۔ یہ خاتون جنسی تبدیلی کے ذریعے مرد سے عورت بنی تھی تاہم اس کے مردانہ جنسی اعضاءکو سرجری کے ذریعے ختم نہیں کرارکھا تھا اور ہسپتال کا عملہ اس سے آگاہ نہیں تھا۔ برطانیہ کی 80سالہ خاتون رکن پارلیمنٹ ایما نکولسن نے اس افسوسناک واقعے پر پارلیمنٹ میں بھی آواز اٹھائی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ”نیشنل ہیلتھ سروسز کو ’صرف خواتین‘ کے وارڈز اور ’ٹرانس جینڈرز‘ کے متعلق اپنی پالیسی میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ موجودہ پالیسی جنس تبدیل کرکے مرد سے عورت بننے والی ’بظاہر عورتوں‘ کو بھی صرف خواتین کے وارڈز میں علاج کرانے کی سہولت دیتی ہے حالانکہ ان میں سے بیشتر مرد ہی ہوتے ہیں۔موجودہ پالیسی میں صرف خواتین کے وارڈز میں ان ٹرانس جینڈرز کو خواتین پر ترجیح دی جاتی ہے جو کہ پیدائشی خواتین کے ساتھ سراسر ناانصافی ہے۔“