رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
جب بندے کو اس بات کی معرفت حاصل ہوجائے کہ گناہ کا نقصان بہت بڑا ہے، گناہ بندے اور اس کے محبوب کے درمیان رکاوٹ ہے تو وہ اس گناہ کے ارتکاب پر ندامت اختیار کرتا ہے اور اس بات کا قصد واِرادہ کرتا ہے میں گناہ کو چھوڑ دوں گا، آئندہ نہ کروں گا اور جو پہلے کیے ان کی وجہ سے میرے اعمال میں جو کمی واقع ہوئی اسے پورا کرنے کی کوشش کروں گا تو بندے کی اس مجموعی کیفیت کو توبہ کہتے ہیں۔ علم ندامت اور اِرادے ان تینوں کے مجموعے کا نام توبہ ہے لیکن بسا اوقات ان تینوں میں سے ہر ایک پر بھی توبہ کا اطلاق کردیا جاتا ہے۔[1] (نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۱۰۵، ۱۰۶)
آیت مبارکہ:اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآنِ پاک میں ارشادفرماتا ہے:( یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ تَوْبَةً نَّصُوْحًاؕ-)(پ۲۸، التحریم: ۸)ترجمۂ کنز الایمان: ’’اے ایمان والو اللہ کی طرف ایسی توبہ کرو جو آگے کو نصیحت ہوجائے۔‘‘صدرالافاضل حضرتِ علّامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْہَادِی اس آیت کے تحت فرماتے ہیں:’’ توبۂ صادِقہ جس کا اثر توبہ کرنے والے کے اَعمال میں ظاہر ہو، اُس کی زندگی طاعتوں اور عبادتوں سے معمورہو جائے اور وہ گناہوں سے مجتنب(یعنی بچتا) رہے۔امیر المؤمنین حضرتِ سیدنا عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہاور دوسرے اَصحاب نے فرمایا کہ توبۂ نصوح وہ ہے کہ توبہ کے بعد آدمی پھر گناہ کی طرف نہ لوٹے جیسا کہ نکلا ہوا دودھ پھر تھن میں واپس نہیں ہوتا۔‘‘[2] (نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ ۱۰۶)(حدیث مبارکہ)توبہ کرنے والاربّ تعالی کو پسند ہے:سردارِ دو جہان، محبوبِ رحمٰن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا فرمان عالیشان ہے: ’’بے شک اللہ عَزَّ وَجَلَّ توبہ کرنے والے ،آزمائش میں مبتلا مؤمن بندے کو پسند فرماتا ہے۔‘‘[3](نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ ۱۰۶)
توبہ کا حکم:ہرمسلمان پر ہر حال میں ہر گناہ سے فوراً توبہ کرنا واجب ہے، یعنی گناہ کی معرفت ہونے کے بعداس پر ندامت اختیار کرنا اور آئندہ نہ کرنے کا عہد کرنا اور گزرے ہوئے گناہوں پر ندامت وشرمندگی اور افسوس کرنا بھی واجب ہے اور وجوبِ توبہ پر اِجماعِ اُمت ہے۔[4](نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ ۱۰۶،۱۰۷)گناہوں سے توبہ کرنے کا طریقہ:اعلیٰ حضرت ،امامِ اہلسنت مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں: ’’سچی توبہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے وہ نفیس شے بنائی ہے کہ ہر گناہ کے ازالے کو کافی ووافی ہے، کوئی گناہ ایسا نہیں کہ سچی توبہ کے بعد باقی رہے یہاں تک کہ شرک وکفر۔ سچی توبہ کے یہ معنی ہیں کہ گناہ پراس لیے کہ وہ اس کے ربّ عَزَّوَجَلَّکی نافرمانی تھی، نادِم وپریشان ہو کرفوراً چھوڑ دے اور آئندہ کبھی اس گُناہ کے پاس نہ جانے کا سچے دِل سے پُورا عزم کرے، جو چارۂ کار اس کی تلافی کا اپنے ہاتھ میں ہوبجا لائے۔مثلاً نماز روزے کے ترک یا غصب (ناجائز قبضہ)، سرقہ(چوری)، رشوت، ربا(سود)سے توبہ کی تو صرف آئندہ کے لیے ان جرائم کا چھوڑ دینا ہی کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی ضرور ہے جو نماز روزے ناغہ کیے ان کی قضا کرے، جو مال جس جس سے چھینا، چرایا، رشوت، سود میں لیا انہیں اور وہ نہ رہے ہوں تو ان کے وارثوں کو واپس کردے یا معاف کرائے، پتا نہ چلے تو اتنا مال تصدق (یعنی صدقہ)کردے اور دل میں یہ نیت رکھے کہ وہ لوگ جب ملے اگر تصدق پر راضی نہ ہوئے اپنے پاس سے انہیں پھیر دوں گا۔‘‘[5](نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ ۱۰۷)
توبہ میں تاخیر کی سات (7)وجوہات اور ان کا حل:(1)گناہوں کے انجام سے غافل رہنا:اس کا حل یہ ہے کہ بندہ اپنا یوں ذہن بنائے کہ محض ایک ڈاکٹر کی بات پر اعتبار کرکے آئندہ نقصان سے بچنے کے لئے کئی اشیاء کو ان کی تمام تر لذت کے باوجود چھوڑ دیتا ہوں تو کیا یہ نادانی نہیں ہے کہ میں نے ایک بندے کے ڈرانے پر اپنی لذتوں کو چھوڑ دیا لیکن تمام کائنات کے خالق عَزَّوَجَلکے وعدۂ عذاب کو سچا جانتے ہوئے اپنے نفس کی ناجائز خواہشات کو ترک نہیں کرتا ۔(2) دل پر گناہوں کی لذت کا غلبہ ہونا: اس کا حل یہ ہے کہ بندہ اس طرح سوچ وبچار کرے کہ جب میں زندگی کے مختصر ایام میں ان لذتوں کو نہیں چھوڑ سکتا تو مرنے کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کے لئے لذتوں(یعنی جنت کی نعمتوں)سے محرومی کیسے گوارہ کروں گا؟جب میں صبر کی آزمائش برداشت نہیں کرسکتا تو نارِ جہنم کی تکلیف کس طرح برداشت کروں گا ؟
(3) طویل عرصہ زندہ رہنے کی امید ہونا:اس کا حل یہ ہے کہ بندہ اس طرح غور کرے کہ جب موت کا آنا یقینی ہے اور مجھے اپنی موت کے آنے کا وقت بھی معلوم نہیں تو توبہ جیسی سعادت کو کل پر مو قوف کرنا نادانی نہیں تو اور کیا ہے ؟جس گناہ کو چھوڑنے پر آج میرا نفس تیار نہیں ہورہا کل اس کی عادت پختہ ہوجانے پر میں اس سے اپنادامن کس طرح بچاؤں گا؟اوراس بات کی بھی کیا ضمانت ہے کہ میں بڑھاپے میں پہنچ پاؤں گا یا نوکری سے ریٹائر ہونے تک میں زندہ رہوں گا ؟(4)رحمت الٰہی کے بارے میں دھوکے کا شکار ہونا: اللہ عَزَّ وَجَلَّ بڑا غفوررحیم ہے، ہمیں اللہکی رحمت پر بھروسہ ہے وہ ہمیں عذاب نہیں دے گا۔اس کا حل یہ ہے کہ بندہ اس بات پر غور کرے کہ اللہ تَعَالٰی کے رحیم وکریم ہونے میں کسی مسلمان کو شک وشبہ نہیں ہوسکتا لیکن جس طرح یہ دونوں اس کی صفات ہیں اسی طرح قہار اور جبار ہونا بھی ربّ عَزَّوَجَلَّکی صفات ہیں اور یہ بات بھی قرآن وحدیث سے ثابت ہے کہ کچھ نہ کچھ مسلمان جہنم میں بھی جائیں گے تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ وہ مسلمان تو غضب ِ الٰہی 1کا شکار ہوں اور جہنم میں جائیں لیکن مجھ پر رحمت الٰہی کی چھماچھم برسات ہو اور مجھے داخل جنت کیا جائے؟[6] ) بعد توبہ استقامت نہ ملنے کا خوف ہونا:اس کا حل یہ ہے کہ یہ سراسر شیطانی وسوسہ ہے کیونکہ آپ کو کیا معلوم کہ توبہ کرنے کے بعد آپ زندہ رہیں گے یا نہیں ؟ ہوسکتا ہے کہ توبہ کرتے ہی موت آجائے اور گناہ کرنے کا موقع ہی نہ ملے۔ وقت توبہ آئندہ کے لئے گناہوں سے بچنے کا پختہ ارادہ ہونا ضروری ہے ، گناہوں سے بچنے پر استقامت دینے والی ذات تو ربّ العالمین کی ہے ۔اگر ارتکاب ِگناہ سے محفوظ رہنا نہ بھی نصیب ہوا تو بھی کم از کم گذشتہ گناہوں سے تو جان چھوٹ جائے گی اور سابقہ گناہوں کا معاف ہوجانا معمولی بات نہیں ۔اگر بعد توبہ گناہ ہو بھی جائے تو دوبارہ پُرخلوص توبہ کرلینی چاہيے کہ ہوسکتا ہے یہی آخری توبہ ہو اور اسی پر دنیا سے جانا نصیب ہو۔(6)کثرتِ گناہ کی وجہ سے مایوسی کا شکار ہوجانا:اس کا حل یہ ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہے، رحمت خداوندی کس طرح اپنے امیدوارکو آغوش میں لیتی ہے ،اس کا اندازہ اس روایت سے لگایا جاسکتا ہےکہ مکی مدنی سرکار، جناب احمد مختار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا: ’’حق تَعَالٰی اپنے بندوں پر اس سے کہیں زیادہ مہربان ہے، جتنا کہ ایک ماں اپنے بچے پر شفقت کرتی ہے۔‘‘[7]
(7)توبہ کرنے میں شرم وجھجک محسوس کرنا: توبہ کرنے کے بعد جب میرا اندازِ زندگی تبدیل ہوگا مثلاً پہلے میں نمازیں قضا کردیا کرتا تھا مگر بعد ِ توبہ پانچ وقت مسجد کا رُخ کرتے دکھائی دوں گا ، پہلے میں شیوڈ تھا بعد ِ توبہ میرے چہرے پر سنت مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمیعنی داڑھی شریف سجی ہوئی نظر آئے گی تو لوگ مجھے عجیب نگاہوں سے دیکھیں گے اور مجھے شرم محسوس ہوگی۔ یاد رکھیے! یہ بھی شیطانی وسوسہ ہے، ذرا سوچئے تو سہی کہ آج ان لوگوں کی پرواہ کرتے ہوئے اگر آپ نیکی کے راستے پر چلنے سے کتراتے رہے اور سنتوں سے منہ موڑتے رہے لیکن کل جب قیامت کے دن ساری مخلوق کے سامنے اپنا نامۂ اعمال پڑھ کر سنانا پڑے گااور اگر اس میں گناہ ہی گناہ ہوئے تو کس قدر شرم آئے گی ۔ لہٰذا آخرت میں شرمندہ ہونے سے بچنے کے لئے دنیاکی عارضی شرم وجھجھک کو بالائے طاق رکھتے ہوئے فوراً توبہ کی سعادت حاصل کرلینی چاہيے ۔