اسلامک کارنر

رشتے کے لئے لڑکا کیسا ہونا چاہیے

اسلامی شریعت کے مطابق رشتہ طے کرتے وقت اس بات کا خیال رکھا جائے کہ لڑکے اور لڑکی کے قد کاٹھ، شکل و صورت، تعلیم و تربیت میں ہر ممکن حد تک مناسبت پائی جائے تاکہ دونوں میں ہم آہنگی، مطابقت و موافقت اور الفت قائم ہو سکے۔ بےجوڑ اور غیرمناسب رشتوں سے بچا جائے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ.تو ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہارے لئے پسندیدہ اور حلال ہوں۔النساء، 4:3اس آیت مبارکہ کے مطابق پسندیدگی دو طرفہ ہے، صرف لڑکے کو لڑکی پسند ہونا کافی نہیں ہے بلکہ لڑکی کو بھی لڑکا پسند ہونا ضروری ہے، پھر ہی دونوں میں ہم آہنگی پیدا ہو سکتی ہے۔ اور شادی کے مقاصد میں سے یہ بھی ہے کہ دونوں میں محبت و مودت ہو اور ایک دوسرے سے سکون پائیں۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ.

اور یہ (بھی) اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے پیدا کیے تاکہ تم ان کی طرف سکون پاؤ اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی، بے شک اس (نظامِ تخلیق) میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں۔الروم، 30: 21حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:لَا تُنْكَحُ الْأَيِّمُ حَتَّى تُسْتَأْمَرَ وَلَا تُنْكَحُ الْبِكْرُ حَتَّى تُسْتَأْذَنَ.غیر شادی شدہ کا نکاح اس سے پوچھے بغیر نہ کیا جائے اور کنواری کا بغیر اجازت نکاح نہ کیا جائے۔بخاری، الصحيح، كتاب النكاح، باب لا ينكح الأب وغيره البكر والثيب إلا برضاها، 5: 1974، رقم: 4843، بيروت: دار ابن کثير اليمامةمسلم، الصحيح، كتاب النكاح، باب استئذان الثيب في النكاح بالنطق والبكر بالسكوت، 2: 1036، رقم: 1419، بيروت: دار إحياء التراث العربیانتخاب زوج کے لیے یہ بنیادی چیزیں ہیں جنہیں نظر انداز کر کے اکثر لوگ لڑکے کے مال ودولت کو دیکھ کر لڑکیوں کی زندگیاں برباد کر بیٹھتے ہیں۔ اگر لڑکے کے پاس زیادہ مال ودولت کی بجائے ضروریات زندگی پوری کرنے کی استطاعت اور اچھا کردار ہو تو دونوں کی زندگی میں محبت وسکون اور اللہ تعالیٰ کی رحمت جیسی نعمتیں بآسانی نازل ہو سکتی ہیں۔ اور اسی کی تعلیم دی گئی ہے۔ حضرت یحییٰ بن ابی کثیر روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

إِذَا جَاء َکُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ أَمَانَتَهُ وَخُلُقَهُ فَأَنْکِحُوهُ کَائِنًا مَنْ کَانَ، فَإِنْ لَا تَفْعَلُوا تَکُنْ فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ کَبِیرٌ، أَوْ قَالَ: عَرِیضٌ.جب تمہارے پاس ایسے شخص کے نکاح کا پیغام آئے جس کی دینداری اور اخلاق تمہیں پسند ہوں تو اس سے نکاح کردو خواہ وہ کوئی بھی شخص ہو۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو زمین میں بہت زیادہ فساد اور فتنہ پھیلے گا۔عبد الرزاق، المصنف، 6: 152، رقم: 10325، بيروت: المكتب الإسلامياسی طرح حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:اِذَا خَطَبَ اِلَیْکُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِیْنَه وَخُلُقه فَزَوِّجُوْ اِلَّا تَفْعَلُوا تَکُنْفِتْنَةٌ فِی الْارْضِ وَفَسَادٌ عَرِیْضٌ.جب تمہیں ایسا شخص نکاح کا پیغام دے جس کا دین و اخلاق تمہیں پسند ہو تو اس سے نکاح کر دو، اگر ایسا نہ کرو گے تو زمین میں بہت بڑا فتنہ بپا ہو گا۔ترمذي، السنن، كتاب النكاح، باب ما جاء إذاجاء كم من ترضون دينة فزوجوه، 3: 394، رقم: 1084، بيروت: دار إحياء التراث العربي

اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ اچھا شوہر وہی ہو گا جو ذیل میں مذکور حدیث مبارکہ کے جملہ امور پر عمل کرنے والا ہوگا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:أَنْ يُطْعِمَهَا إِذَا طَعِمَ وَأَنْ يَكْسُوَهَا إِذَا اكْتَسَى وَلَا يَضْرِبِ الْوَجْهَ وَلَا يُقَبِّحْ وَلَا يَهْجُرْ إِلَّا فِي الْبَيْتِ.جب خود کھائے تو اسے بھی کھلائے، جب خود پہنے تو اسے بھی پہنائے ۔ اس کے منہ پر نہ مارے، اسے برا نہ کہے اور گھر کے علاوہ تنہا کہیں نہ چھوڑے۔ابن ماجه، السنن، کتاب النکاح، باب حق المرأة علی الزوج، 2: 417، رقم: 1850لہٰذا بہترین انتخاب زوج کے لئے معیار یہ ہونا چاہیے کہ مرد دین دار ، با اخلاق اور وسیع النظر ہو اور اہل خانہ کو نیکی کی رغبت دلانے والا ، حلال رزق کمانے والا اور اپنے خاندان یعنی بیوی اور بچوں کی کفالت کا اہل ہو۔ جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَهُوِجَاءٌ.اے نوجوانو! تم میں سے جو شخص گھر بسانے کی استطاعت رکھتا ہو وہ شادی کرلے کیونکہ نکاح سے نظر بہکتی نہیں اور شرمگاہ محفوظ رہتی ہے، اور جو شخص نکاح کی استطاعت نہ رکھتاہو تو وہ روزے رکھے کیونکہ روزے اس کی شہوت کو کم کر دیتے ہیں۔مسلم، الصحیح، کتاب النکاح، ومن لم يستطع فعليه بالصوم فإنه له وجاء، 2: 1019، رقم: 1400علاوہ ازیں مرد کو حلیم الطبع، بہادر ، خوش خلق، عورت سے بھلائی کرنے والا، اچھے کاموں سے محبت والا خصوصاً بیوی کے اچھے کاموں پر دل کھول کر داد دینے والا، احسان کرنے والا، ظلم وتشدد سے پرہیز کرنے والااور معاملاتِ زندگی میں بہترین منظم اور معاشی لحاظ سے خود کفیل ہونا چاہیے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button