رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:وَکُلَّ شَیْئٍ اَحْصَیْنٰهُ فِیْٓ اِمَامٍ مُّبِیْنٍoاور ہر چیز کو ہم نے روشن کتاب (لوحِ محفوظ) میں احاطہ کر رکھا ہے۔یٰسین، 36:12لوح محفوظ پر لکھی ہوئی ہر چیز تقدیر کہلاتی ہے جس تک عام مخلوق کی رسائی نہیں ہے اور حدیث مبارکہ میں تقدیر کا ذکر یوں آیا ہے:عَنْ عَبْدِ ﷲِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ ﷲِ یَقُولُ کَتَبَ اﷲُ مَقَادِیرَ الْخَلَائِقِ قَبْلَ أَنْ یَخْلُقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِخَمْسِینَ أَلْفَ سَنَةٍ قَالَ وَعَرْشُهُ عَلَی الْمَاءِ.حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں اور زمین کو پیدا کرنے سے پچاس ہزار سال پہلے مخلوقات کی تقدیر کو لکھا اور عرش پانی پر تھا۔
مسلم، الصحیح، 4: 2044، رقم: 2653، بیروت، لبنان: دار احیاء التراث العربيیعنی اﷲ تعالیٰ نے کائنات کے بارے میں جو کچھ لوح محفوظ پر لکھ رکھا ہے، اُسی کو تقدیر، قضاء وقدر یا مقدر کہتے ہیں۔ پھر تقدیر کی تین اقسام ہیں جن کا ذیل میں مختصر تعارف بیان کیا گیا ہے:تقدیر مبرم حقیقی:یہ آخری اور اٹل فیصلہ ہوتا ہے جس کو اﷲ تعالیٰ کے حکم سے لوح محفوظ پر لکھ دیا جاتا ہے اور اس میں تبدیلی ناممکن ہے اسی لیے جب فرشتے قوم لوط e پر عذاب کا حکم لے کر آئے تو حضرت ابراہیم e کی بارگاہ خداوند میں عرض کے باوجود اﷲ تعالیٰ نے عذابنازل کرنے کا حکم دیا اور فرمایا:یٰٓـاِبْرٰهِیْمُ اَعْرِضْ عَنْ هٰذَاج اِنَّـهٗ قَدْ جَآءَ اَمْرُ رَبِّکَ ج وَاِنَّهُمْ اٰتِیْهِمْ عَذَابٌ غَیْرُ مَرْدُوْدٍo
(فرشتوں نے کہا:) اے ابراہیم! اس (بات) سے درگزر کیجیے، بے شک اب تو آپ کے رب کا حکمِ (عذاب) آچکا ہے، اور انہیں عذاب پہنچنے ہی والا ہے جو پلٹایا نہیں جا سکتا۔هود، 11: 76چونکہ یہ عذاب تقدیر مبرم حقیقی تھا اس لیے ٹل نہ سکا۔تقدیر مبرم غیر حقیقی:تقدیر مبرم غیر حقیقی تک خاص اولیاء اﷲ اور اکابرین کی رسائی ہوسکتی ہے جن کی دعاؤں سے یہ بدل جاتی ہے:عَنْ سَلَیْمَانَ قَالَ، قَالَ رَسُولُ ﷲِ: لَا یَرُدُّ الْقَضَاءَ إِلَّا الدُّعَاءُ وَلَا یَزِیدُ فِي الْعُمْرِ إِلَّا الْبِرُّ.حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تقدیر کو دعا ہی بدل سکتی ہے اور نیکی ہی سے عمر بڑھتی ہے۔ترمذي، السنن، 4: 448، رقم: 2139، بیروت، لبنان: دار احیاء التراث العربيلہٰذا یہ اﷲ تعالیٰ کے خاص لوگوں کی دعاؤں سے تبدیل ہو سکتی ہے۔
تقدیر معلق:تیسری قسم تک اکثر اولیاء وصالحین اور نیک بندوں کی رسائی ہو سکتی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:یَمْحُوا ﷲُ مَا یَشَآءُ وَیُثْبِتُج وَعِنْدَهٗٓ اُمُّ الْکِتٰبِoاﷲ جس (لکھے ہوئے) کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور (جسے چاہتا ہے) ثبت فرما دیتا ہے، اور اسی کے پاس اصل کتاب (لوحِ محفوظ) ہے۔الرعد، 13: 39اس لیے تقدیر معلق اولیاء کی دعاؤں، والدین کی خدمت اور صدقہ وخیرات وغیرہ سے تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ لہٰذا ہمیں اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی بخشش ومغفرت اور بہتری کے لئے ہر لمحہ دعا کرتے رہنا چاہیے۔اور دعا اس لئے بھی ضروری ہے کہ بندہ اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے آپ کو بے بس، لاچار اور عاجز پیش کرتا رہے تو احساس بندگی قائم رہتا ہے۔ امام ابن حجر عسقلانی فتح الباري میں علامہ طیبی کا قول نقل کرتے ہیں:هُوَ إِظْهَارُ غَایَةِ التَّذَلُّلِ وَالِافْتِقَارِ إِلَی اﷲِ وَالِاسْتِکَانَةِ لَهُ.
اﷲ کی بارگاہ میں غایت درجہ تواضع، محتاجی اور عاجزی وانکساری کا اظہار کرنا دعا کہلاتا ہے۔عسقلاني، فتح الباري، 11: 95، بیروت: دار المعرفةارشادِ باری تعالیٰ ہے:وََقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْط اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دَاخِرِیْنَoاور تمہارے رب نے فرمایا ہے تم لوگ مجھ سے دعا کیا کرو میں ضرور قبول کروں گا، بے شک جو لوگ میری بندگی سے سرکشی کرتے ہیں وہ عنقریب دوزخ میں ذلیل ہو کر داخل ہوں گے۔المومن، 40: 60دعا سے تقدیرِ مبرم غیر حقیقی اور تقدیرِ معلق میں تبدیلی ممکن ہے۔ دعا عقیدہ توحید میں پختگی و قربِ الٰہی کاذریعہ بھی ہے۔ دعا اور اس کی اہمیت کی مزید وضاحت کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی کتاب ’دعا اور آدابِ دعا‘ ملاحظہ کیجیے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ موت و حیات، بھوک و تونگری، معاش و معاشرت سب اللہ تعالیٰ کے علم میں ہیں، تقدیر اصلاً یہی علمِ الٰہی ہے۔ ان کے بارے میں خدا تعالیٰ سے دعا کرنا ان کو بدل سکتا ہے۔ پہلی تقدیر اور دعا کی وجہ سے بدلنے والی تقدیر سب اللہ کے علم میں ہوتا ہے۔ پھر دعا بذات خود عبادت بھی ہے، دعا کی قبولیت یا عدمِ قبولیت اپنی جگہ دعا کرنے کا الگ اجر و ثواب ہے