اسلامک کارنر

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

مومن کی پہچان اس کے پاکیزہ اوصاف اوراس کے اعلی اخلاق ہوتے ہیں اور انہی اوصاف کی وجہ سے مومن کو انفرادیت ملے گی اور جنت میں وہ پہچانا جائے گا۔ اعلی اخلاق کو اپنانا شریعت کا بنیادی مقصد ہے، اور اسلام نے اس کی بہت زیادہ ترغیب دی ہے۔ شخصیت انسان کی پہچان ہوتی ہے۔ انسان جیسے اوصاف اپنے اندر پیدا کر لے وہی اس کی شخصیت ہے۔ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ مجھے اچھے اخلاق کی تعلیم دینے کے لیے بھیجا گیا ہے۔ نبی کریمﷺنے مسلمانوں کو حسن اخلاق کو اپنانے اور بداخلاقی سے بچنے کی پر زور ترغیب دی ہے۔ رسول کریم ﷺنے فرمایا: قیامت کے روز میرے سب سے نزدیک وہ ہوگا جس کا اخلاق اچھا ہے۔ حسن اخلاق انسان میں بلندی اور رفعت کے جذبات کا مظہر ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انسان میں پستی کے رجحانات بھی پائے جاتے ہیں جنہیں رذائل اخلاق کہا جاتا ہے۔ اسلام میں حسن اخلاق کو جو اہمیت حاصل ہے وہ کسی دوسرے مذہب میں نہیں ہے۔

ضروری ہے کہ اچھے اخلاق کے ساتھ ساتھ غصہ، انتقام، عداوت، تکبر کے جذبات پر قابو پایا جائے اور تحمل و برداشت اور عاجزی و انکساری کو شعار بنایا جائے۔ اگر آدمی ایسا کرے گا تو اس کے نفس کی تربیت ہوگی، اس کے اخلاق سنوریں گے۔ وہ اللہ کا بھی محبوب بن جائے گا اور خلق خدا بھی اس سے محبت کرے گی۔ ادب و آداب اور اخلاق کسی بھی قوم کا طرہ امتیاز ہے اگرچہ دیگر اقوام یا مذاہب نے اخلاق و کردار اور ادب و آداب کو فروغ دینے میں ہی اپنی عافیت جانی مگر اس کا تمام تر سہرا اسلام ہی کے سر جاتا ہے جس نے ادب و آداب اور حسن اخلاق کو باقاعدہ رائج کیا اور اسے انسانیت کا اولین درجہ دیا۔ حسنِ اخلاق اور ادب پر لاتعداد احادیث مبارکہ ہیں کہ چھوٹے ہوں یا بڑے سب کے ساتھ کس طرح ادب و اخلاق سے پیش آنے کی تلقین اور ہدایت فرمائی گئی ادب اور اخلاق کسی معاشرے کی بنیادی حیثیت کا درجہ رکھتا ہے جو معاشرے کو بلند تر کر دینے میں نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ادب سے عاری انسان اپنا مقام نہیں بنا سکتا۔ باادب بامراد اور بے ادب بے مراد ہوتا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:تم آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ احسان اوراخلاق کامعاملہ کرو۔ حدیث نبوی ﷺ کے مطابقمیں سب سے کامل ایمان والا شخص وہ ہے جو اچھے اخلاق کا مالک ہو اور سب سے بہترین وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ بہترین ہو۔ اخلاق، خُلق سے ہے، خُلق کے لغوی معنی ہیں، عادت اور خصلت اور حسن خلق سے مراد خوش اخلاقی، مروت، اچھا برتاؤ، اچھا رویہ اور اچھے اخلاق ہیں۔

رسول اللہ ﷺنے اپنی بعثت کا مقصد مکارمِ اخلاق کی تکمیل کو قرار دیا اورآپ ﷺکے اخلاقِ کریمانہ کے باعث ہی اسلام پھیلا۔ آپ ﷺنے اپنے ارشادات میں اخلاق حسنہ کو نہایت اہمیت دی ہے۔ حضرت ابو درداء ؓ روایت کرتے ہیں۔ حضور اکرمﷺنے ارشاد فرمایا :جو چیزیں کل قیامت میں میزانِ عمل میں تولی جائیں گی، ان میں اچھے اخلا ق سب سے زیادہ وزن والے ہوں گے۔ اس لیے کہ اچھے اخلاق والا شخص روزے دار اور نماز ی کے درجے تک پہنچ جاتا ہے۔ (ترمذی )حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ آپﷺنے فرمایا : اچھے اخلاق اللہ کی طرف سے ہیں، اللہ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے، اسے اچھے اخلاق سے نوازتا ہے۔ (طبرانی)مسند احمد کی ایک روایت میں تو آپﷺنے ایمان کی تعریف بھی اچھے اخلاق سے کی۔ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے آپﷺکے اخلاق کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:آپﷺکا اخلاق قرآن کریم ہے۔ حضرت قتادہؓ فرماتے ہیں کہ خُلق سے مراد یہاں یہ ہے کہ نبی کریمﷺقرآن کریم کی عملی تفسیر ہیں۔ موطا امام مالک میں ہے، نبی کریمﷺنے ارشاد فرمایا: میں حسن اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button