رمضان کی طاق راتوں کا نا یا ب وظیفہ۔ رزق کی تنگی ختم۔

رمضان کی طاق راتوں کے سلسلے میں احادیث میں فضیلت بیان کی گئی ہے ، لہٰذا اس میں آدمی کے لیے انفرادی طور پر جتنا عمل کرنا ممکن ہو کرے؛ لیکن طاق راتوں میں اجتماعی طور پر دعا و عبادت کا التزام مشروع اور ثابت نہیں ہے ، اس لیے باقاعدہ اجتماع کا التزام واہتمام نہ کیا جائے ،انفرادی طور پر عبادت کرنی چاہیے اور ویسے رمضان کی تو ساری ہی راتوں میں عبادت کا اہتمام کرنا چاہیے ۔شبِ قدر کی تعیین اٹھالی گئی ہے کہ وہ متعین طور پر معلوم نہیں ہے کب ہو! البتہ رمضان المبارک اور پھر خاص کر آخری عشرہ اور پھر اس میں بھی طاق راتوں میں اس کے ملنے کا زیادہ امکان ہے۔
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے: حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ لیلۃ القدر کو رمضان کے آخر عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو ۔ طاق راتوں سے مراد ، 21، 23، 25، 27، 29 کی راتیں ہیں، اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ رمضان المبارک کے پورے مہینے میں راتوں کو عبادت کی کوشش کرے ، اگر پوری رات مشکل ہوتو کچھ وقت ، ورنہ عشاء کی نماز جماعت سے پڑھ کر تراویح پڑھے اور اس کے بعد دو ، چار رکعت پڑھ کر سوجائے، یا سحری میں بیدار ہوکر دو چارر کعات تہجد پڑھ لے اورصبح فجر کی نماز جماعت سے پڑھ لے تو اسے ان شاء اللہ شبِ قدر مل جائے گی۔
باقی شب قدر کے اعمال تو اس بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ یارسول اللہ ! اگر مجھے شب قدر کا پتا چل جائے تو کیا دعا مانگوں؟ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہو : اَللّٰهم إِنَّک عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّيْ اے اللہ! تو بے شک معاف کرنے والا ہے اور پسند کرتا ہے معاف کرنے کو‘ پس معاف فرما دے مجھے بھی۔یہ نہایت جامع دعا ہے کہ حق تعالیٰ اپنے لطف و کرم سے آخرت کے مطالبہ سے معاف فر ما دیں تو اس سے بڑھ کر اور کیا چاہیے.شبِ قدر کی تعیین اٹھانے کی ایک حکمت علماء نے یہ لکھی ہے کہ مختلف راتوں میں زیادہ سے زیادہ اعمال کی ترغیب مقصود ہے، تاکہ امت مختلف طاق راتوں میں خوب عبادت کرے، ایسا نہ ہو کہ صرف ایک رات میں مخصوص وقت مخصوص عبادت کرلے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان فرمایاہے کہ آخری عشرہ داخل ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی اس کی راتیں جاگتے تھے۔
اور اپنے گھروالوں کو بھی جگاتے تھے اور کمربند کس لیا کرتے تھے۔ نیز فرماتی ہیں :آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک کے آخری عشرے میں جتنی محنت فرماتے تھے اتنی محنت او دنوں میں نہیں فرماتے تھے۔ لہٰذا امتی کو چاہیے وہ تمام طاق راتوں میں فرائض کی ادائیگی کے ساتھ ، نفل نماز، تلاوت، درود شریف، دعاؤں اور دیگر اذکار کا خوب اہتمام کرے، اس رات کا کوئی خاص عمل نہیں ہے، بہتر یہ ہے کہ تھوڑے تھوڑے سبھی اعمال کیے جائیں اس طرح ہر قسم کے اعمال کا ثواب بھی حاصل ہوجائے گا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے امید ہے کہ اسے شبِ قدر بھی حاصل ہوجائے گی۔اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو