حضرت آدمؑ اور موت کا فرشتہ آمنے سامنےاللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں فرمایا:آپ فرما دیجئے کہ تم

اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں فرمایا:”آپ فرما دیجئے کہ تم کو موت کا فرشتہ موت دیتا ہے جو تم پر مقرر ہے ۔“یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی وفات کا وقت قریب آجاتا ہے تو ہمارے فرشتے اس کو موت دیتے ہیں اور کوتاہی نہیں کرتے۔تفسیر :حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ توفتہ رسلنا کی تفسیر میں بیان کرتے ہیںکہ رسل سے مراد ملک الموت کے مدرگار فرشتے ہیں
۔احادیث مبارکہ:وہب بن منبہ رحمة اللہ علیہ نے روایت کی کہ جو فرشتے انسانوں کو موت دینے آتے ہیں وہی انسان کی موت کے اوقات لکھ دیتے ہیں اب جب کسی نفس کی موت کا وقت ہوتا ہے وہ اس کی روح ملک الموت کے حوالے کر دیتے ہیں۔حضرت آدم علیہ السلام کی مٹی لانے والے ملائکہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کی کہ جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلا م کو پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا تو عرش اٹھانے والے فرشتوں میں سے ایک کو بھیجا کہ زمین سے کچھ مٹی لے آﺅ جب فرشتہ مٹی لینے کو آیاتو زمین نے فرشتہ سے کہا میں تجھے اس ذات کی قسم دیتی ہوں جس نے تجھے میری پاس بھیجا کہ میرے مٹی تو نہ لے جاتا کہ کل اسے آگ میں نہ جلنا پڑے ۔جب وہ اللہ کی بارگاہ میں پہنچا تو اس نے دریافت کیا کہ مٹی کیوں نہ لائے ؟فرشتہ نے زمین کا جواب سنا دیا کہ
اے مولا ! جب اس نے تیری عظمت کا واسطہ دلا یا تو میں نے اسے چھوڑ دیا تو اللہ تعالیٰ نے دوسرے فرشتے کو بھیجا ۔ اس کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا ۔حتیٰ کہ ملک الموت علیہ السلام کو بھیجا ۔ زمین نے ان کو بھی یہی جواب دیا تو آپ نے فرمایا اے زمین ! جس ذات نے مجھے تیری طرف بھیجا ہےوہ تجھ سے زائد اطاعت و فرماں برداری کے لائق ہے میں اس کے حکم کے سامنے تیری بات کیسے مان سکتا ہوں ۔چنانچہ آپ نے زمین کے مختلف حصوں سے تھوڑی تھوڑی مٹی لی اور بارگاہ ایزدی میں حاضر ہوئے تو اللہ نے اس کو جنت کے پانی سے گوندھا تو وہ کیچڑ ہو گئی ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس سے آدم علیہ السلام کو پیدا کر دیا ۔روایت میں آتا ہے کہ دنیا کا نظام چار فرشتوں کے سپرد ہے ۔حضرت جبرائیل علیہ السلام کے سپرد لشکروں اور ہواﺅں کا کام ہے ۔
حضرت میکائیل علیہ السلام کے سپرد بارش اور نباتات کا کام ہے ۔حضرت عزرائیل علیہ السلام روح کے قبض کرنے کے کام پر مامور ہیں اورحضرت اسرافیل علیہ السلام ان سب کو امر الہٰی پہنچاتے ہیں۔حضرت ربیع بن انس رضی اللہ عنہ نے روایت کی کہ ملک الموت کے بارے میں ان سے دریافت کیا گیا کہ آیا وہ تنہا روحیں قبض کرتے ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا کہ ملک الموت کے مدد گار ہیں اور متبع ہیں اور وہ ان کے قائد ہیں اور ملک الموت کا ایک قدم مشرق سے مغرب تک ہے اور مومنین کی روحیں سدرہ کے پاس ہوتی ہیں۔ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فَالمُدَبِّرَاتِ اَمرًا کی یہ تفسیر روایت کی کہ اس سے مراد وہ فرشتے ہیںجو ملک الموت کے ساتھ میت کے پاس قبض روح کے وقت حاضر ہوتے ہیں ۔ان میں سے کوئی روح کو لے کر چڑھتا ہے اور کوئی آمین کہتا ہے
، کوئی نماز جنازہ ہونے تک میت کے لئے استغفار کرتارہتا ہے ۔حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ نے ”وقیل من راق“ کی یہ تفسیر روایت کی کہ ملک الموت علیہ السلام کے مددگار فرشتے ایک دوسرے سے کہتے ہیں کہ اس شخص کی روح کو قدم سے لیکر ناک تک کون چڑھائے گا۔ حکایت :خزرج نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایک میت کے پاس دیکھا کہ آپ ﷺ ملک الموت علیہ السلام سے خطاب فرما رہے تھےکہ:”اے ملک الموت ! میرے ساتھی کے ساتھ نرمی کرو کیونکہ وہ مومن ہے ۔“تو ملک الموت نے جواب دیا کہ ”آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور دل خوش ہو ،میں تو ہر مومن پر نرمی کرتا ہوں ،اے محمد ﷺ کہ میں جب آدمی کی روح قبض کرتا ہوں تو چیخنے والے چیختے ہیں تو میں کہتا ہوں کہ بخدا ہم نے اس پر ظلم نہیں کیا ،نہ اس کو وقت سے پہلے موت دی اور ہم نے
اس کو موت دیکر کوئی گناہ نہیں کیا تو اگر تم اللہ تعالیٰ کے کئے پر راضی ہوتو مستحق اجر ہو گے ورنہ لائق عذاب اور ہم کو تو بار بار آنا ہی ہے اس لئے ڈرتے رہو ،خیمے والے ہوں یا کچے مکانوں والے،نیک ہوں یا بد ،پہاڑی علاقوں میں رہنے والے ہوں یا ہموار زمینوں پر بسنے والے ،میں ہر رات اور ہر دن ان میں سے ایک ایک کے چہرے کو غور سے دیکھتا ہوں ، اس لئے میں ہر چھوٹے بڑے کو ان سے زائد پہچانتا ہوں ،بخدا اگر میں مچھر کی روح بھی قبض کرنا چاہوں تو بے اذن الہٰی قبض نہیں کر سکتا ۔ “جعفر بن محمد کہتے ہیں کہ ملک الموت علیہ السلام پنچ گانہ نمازوں کے اوقات میں چہروں کو دیکھتے ہیں تو اگر دیکھتے ہیں کہ کسی نیک اور نمازی انسان کی موت قریب آگئی ہے تو شیطان کو اس سے دور فرماتے ہیں اور اس کو کلمہ طیبہ کی تعلیم دیتے ہیں
۔ملک الموت علیہ السلام دن میں تین مرتبہ لوگوں کے چہرے دیکھتے ہیں ۔جس کی عمر پوری ہو جاتی اور اس کا رزق دنیا سے ختم ہو جاتا ہے ، اس کی روح قبض فرماتے ہیں ۔گھر والے رونے لگتے ہیں ،ملک الموت دروازے کے پٹ پکڑ کر کھڑے ہو کر فرماتے ہیں کہ میں نے تمہارا کوئی قصور نہیں کیا ۔میں تو اللہ کی طرف سے مامور ہوں نہ میں نے اس کا رزق کھایا اور نہ ہی اس کی روح قبض کی اور مجھے تو تمہارے پاس بار بار آنا ہے ۔حتیٰ کہ تم میں سے کوئی باقی نہ بچے۔ حسن رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ لوگ اگر اس فرشتے کو دیکھ پائیںاور اس کے کلام کو سن لیں تو میت کو بھول کر خود اپنے ہی آپ کو رونے لگ جائیں۔حضرت میمون رحمة اللہ علیہ کے والد فرماتے ہیں کہ میں مطلب بن عبد اللہ بن حنطب کی موت کے وقت ان کے پاس ہی تھا تو ایک شخص نے ان کی
تکلیف دیکھ کر کہا کہ اے ملک الموت اس پر نرمی کیجئے تو مرنے والا جس پر بے ہوشی کا عالم طاری تھا کہنے لگا کہ میں تو ہر مومن پر نرمی کرنے والا ہوں۔حکایت:ابراہیم علیہ السلام ایک روز اپنے گھر میں تشریف فرما تھے کہ اچانک گھر میں ایک خوبصورت شخص داخل ہوا آپ نے پوچھا ،اے اللہ کے بندے !تجھے اس گھر میں کس نے داخل کیا؟ اس نے کہا کہ گھر والے نے ۔آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ بے شک صاحب خانہ کو اس کا اختیار ہے ۔یہ تو بتاﺅ کہ تم کون ہو؟ اس نے کہا کہ میں ملک الموت ہوں۔آپ نے فرمایا کہ مجھے تمہاری چند نشانیاں بتائی گئیں ہیں مگر تم میںان میں سے ایک بھی نہیں تو ملک الموت نے پیٹھ پھیرلی۔اب جو آپ نے دیکھا تو ان کے جسم پر آنکھیں ہی آنکھیں نظر آنے لگیں اور جسم کا ہر بال نوک دار تیر کی طرح کھڑا تھا ۔ابراہیم علیہ السلام نے فوراً تعوذ پڑھا
اور ان سے کہا کہ آپ اپنی پہلی ہی شکل پر تشریف لے آئےے ۔ ملک الموت نے فرمایاکہ اے ابراہیم علیہ السلام جب اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو وفات دیتا ہے جو اس کی ملاقات کو بہتر جانتا ہے تو ملک الموت کو اسی شکل میں بھیجا جاتا ہے جس میں میں حاضر ہوا اور دوسری روایت میں ہے کہ جب اس نے پیٹھ موڑی تو اس کی وہ شکل آئی جس سے وہ برے لوگوں کی روح کو قبض کرتا ہے ۔