بیٹی کا حق مہر
ایک کافر جوان اپنے چچا کی بیٹی پر عاشق ہو گیا اس کا چچا حبشہ کا بادشاہ تها جوان اپنے چچا کے پاس گیا اور کہا: چچا جان مجهے آپکی بیٹی پسند ہے میں اسکی خواستگاری کے لئے آیا ہوں. بادشاہ نے کہا:کوئی بات نہیں لیکن اس کا مهر بہت بهاری ہے. جوان نے کہا جو کچھ بھی ہو مجهے قبول ہے. بادشاہ نے کہا:مدینہ شهر میں میرا ایک دشمن رہتا ہے اس کا سر میرے پاس لائو اس وقت میری بیٹی تمہاری ہو گی.
جوان نے کہا : چچا جان آپکے دشمن کا نام کیا ہے ؟ کہا: لوگ اسے علی ابن ابی طالب کے نام سے جانتے ہیں جوان نے فورا گهوڑے کے اوپر زین رکهی اور تیر، تلوا،ر نیزہ اور کمان کے ساتھ راہی
مدینہ ہوا. جب شهر کے نزدیک ایک تپہ کے اوپر پہنچا تو دیکها کہ ایک عربی جوان نخلستان میں باغبانی و بیلچہ چلا رہا ہے. جوان کے نزدیک گیا اور کہا: اے مرد عرب کیا تم علی کو جانتے ہو؟ جوان عرب نے کہا:علی سے کیا کام ہے؟ اس نے کہا: اپنے چچا جو کہ حبشہ کا بادشاہ ہے اس کے لئے علی کا سر لینے آیا ہوں کیونکہ اس نے اپنی بیٹی کا حق مهر علی کا سر قرار دیا ہے. جوان عرب نے کہا: تم علی کا مقابلہ نہیں کرسکتے. اس نے کہا:کیا علی کو جانتے ہو؟
جوان عرب:جی ہر روز اس کے ساتھ ہوتا ہوں اور ہر روز اس کو دیکهتا ہوں. اس نے کہا:علی کیسی هیبت رکهتا ہے کہ میں اس کا سر تن سے جدا نہیں کر سکتا؟ جوان عرب:میرے قد جتنا اس کا قد ہے اور هیکل (جسامت) بهی میرے اندازہ کے مطابق ہے. اس نے کہا :اگر تہماری طرح ہے تو پهر مسئلہ کوئی نئیں. مرد عرب نے کہا: پہلے تم مجهے شکست دو پهر میں تم کو علی کا پتہ بتاؤں گا. کہا:شمشیر و تیر و کمان و سنان. کہا: آمادہ ہو جاو. جوان اونچی آواز میں ہنسا اور کہا کیا تم اس بیلچے سے مجهے شکست دو گے؟ پس تیار ہو جاو شمشیر کو نیام سے نکالا .پهر پوچها کہ تمہارا نام کیا ہے؟ مرد عرب نے جواب دیا عبد اللہ. تمہارا نام کیا ہے ؟ اس نے کہا فتاح اور اسی لمحے تلوار کے ساتھ عبد اللہ پر حملہ کر دیا.
عبد اللہ نے چشم زدن میں اس کو کندهے اور بازو سے پکڑا اور آسمان کی طرف
بلند کیا اور زمین پر دے مارا اور اس کا خنجر اپنے ہاتھ میں لیا اور بلند کیا. اچانک دیکها کہ جوان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو رہے ہیں. مرد عرب نے کہا:کیوں رو رہے ہو؟ جوان نے کہا:میں اپنے چچا کی بیٹی کا عاشق تها آیا تها تاکہ علی کا سر اپنے چچا کے لئے لے جاو تاکہ وہ اپنی دختر مجهے دے لیکن لگتا ہے ابهی آپکے ہاتھوں سے مارا جاؤں گا. مرد عرب نے جوان کو بلند کیا اور کہا:آجاو اس تلوار سے میرا سر اپنے چچا کے لئے لے جائو. اس نے پوچھا تم کون ہو؟ کہا : میں اسد اللہ الغالب ، على ابن ابی طالب ہوں. اگر میرے سر کی وجہ سے خدا کے بندوں میں سے کسی کا دل شاد ہوتا ہے تو میں حاضر ہوں کہ میرا سر تمہارے چچا کی بیٹی کا حق مهر ہو جائے.جوان زور زور سے رونے لگا اور اْپؓ کے قدموں میں گر پڑا اور کہا: میں چاہتا ہوں کہ آج سے آپ کا غلام بن جائوں. اسی طرح فتاح بنام قنبر علی ابن ابی طالب کا غلام ہو گیا.