سنو مسٹر آزاد ۔۔! تھوڑے ہندو بنو ‘‘
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے ڈرائیور کا نام محمد حنیف آزاد تھا جو درحقیقت فلم انڈسٹری میں کام کیا کرتے تھے ۔ قائد اعظم کے نوکری کرنے کا ان کا واقعہ بھی بڑا دلچسپ ہے ۔ بتاتے ہیں کہ میں ممبئی فلم نگری میں آٹھ آنے روز پر اداکاری کرتاتھا ۔ امید تھی کہ ایک دن ضرور فلم انڈسٹری کا درخشندہ ستارہ بنیں گے۔محمد حنیف بہت باتونی تھے اور خوش گفتار بھی تھے، اردو مادری زبان تھی، جس سے امپیریل فلم کمپنی کےتمام ستارے نا آشنا تھے۔ اور اردو نے ان کی بہت مدد کی اور وہ تمام ستاروںکے حال لکھتے اور پڑھتے تھے، اردو میں کوئی خط ہوتا تو آزادکی تلاش شروع ہوجاتی ۔ وہ بتاتے ہیں کہ میری امپیریل فلم کمپنی کے مالک سیٹھ اردشیر ایرانی کے خاص ڈرائیور بدھن سے دوستی ہوگئی اور دوستی کا حق ادا کرتے ہوئے اس نے مجھے کسی حد تک گاڑی چلانا سیکھادی۔ قائداعظم محمد علی جناح مجھے اس وقت بھی بہت عزیز تھے اور میں ہر وقت ان کی باتیں کیا کرتا۔ ایک دن فلمی دنیا کے سب سے بڑے ہیروڈی بلیمو نے ’’ٹائمز آف انڈیا‘‘ اخبار میری طرف بڑھاتے ہوئے کہ ’’لوبھئی یہ تمہارے جناح صاحب میں ۔
میں سمجھا قائداعظم کی تصویر شائع ہوئی ہے میں نے سارا اخبار دیکھ لیا لیکن جب مجھے تصویر نہ ملی تو میں نے چوچھا، کہاں ہے، ان کی فوٹو؟‘‘ تب موریا نے کہا کہ فوٹو نہیں ہے، اشتہار چھپاہے، انہیں ایک موٹر مکینک کی ضرورت ہے۔ میں نے اشتہار کا مضمون پڑھا اور دل میں فیصلہ کرلیا کہ مجھے گاڑی چلانا تو زیادہ آتی نہیں بس اسی بہانے سے قائداعظم کو قریب سے اور ان کا گھر بھی دیکھ لوں گا۔ پھر ایک دن کے بعد قائداعظم کی رہائش گاہ پہنچا۔ باہرپختون پہرے دار کھڑا تھا۔ وہاں میرے علاوہ بھی کئی اور امید دارتھے۔ میں بھی ان میں شامل ہوگیا۔میرا دل صرف اس خیال سے زور زور سے دھڑک رہا تھاکہ بس اب چند لمحوں میں قائداعظم کا دیدار ہونے والا ہے۔ قائداعظم پورچ میں نمودار ہوئے، سب اٹینشن ہوگئے۔ میں ایک طرف سمٹ گیا،
ان کے ساتھ فاطمہ جناح اور دوسری طرف مطلوب صاحب تھے۔ جناح صاحب نے اپنی یک چشمی عینک آنکھ پر جمائی اور تمام امیدواروں کو بڑے غور سے دیکھا، جب ان کی آنکھ کا رخ میری طرف ہو ا تو میں اور زیادہ سمٹ گیا۔فوراان کی آواز بلند ہوئی مجھے صرف اتنا سنائی دیا۔ ’’یو‘‘؟ اتنی انگریزی میں جانتا تھا جس کا مطلب تھا ’’تم ‘‘ مگروہ میرے ساتھ والا چناں چہ میںنے اسے کہنی سے ٹہوکا دیا اور کہاتمہیں بلارہے ہیں۔ میرے ساتھی نے لکنت بھرے لہجے میں پوچھا، صاحب میں؟ قائداعظم کی آواز پھر بلند ہوئی ’’نوتم‘‘؟ ان کی پتلی مگر فولاد جیسی سخت انگلی میری طرف تھی۔میراتن بدن کانپ اٹھا۔ جی جی۔ میں۔۔؟ ’’یس!‘‘ یہ…قائداعظم کے نعرے بلند کرنے والا حلق بالکل سوکھ گیا۔ میں کچھ نہ کہہ سکا۔ مگر جب انہوں نے اپنا مونوکل آنکھ سے اتار کر ’’آل رائٹ‘‘ کہا تو میںنے محسوس کیا کہ
شاید میںنے کچھ کہا تھا جو انہوں نے سن لیا تھا یا وہ میری کیفیت بھانپ گئے تھےاور مجھے مزید اذیت سے بچانے کے لیے انہوں نے ’’آل رائٹ‘‘ کہہ دیا تھا۔پلٹ کر انہوں نے اپنے سیکرٹری مطلوب حسین سید کی طرف دیکھا اور ان سے کچھ کہا۔ مطلوب صاحب نے مجھ پکارا اور کہا کہ صاحب نے تمہیں کل دس بجے یہاں بلایا ہے میںمطلوب صاحب سے یہ سوال نہ کرسکا کہ صاحب نے مجھے کیوں بلایا ہے؟ خیر میں سلیکٹ ہو گیا۔ وہ بتا تے ہیں کہ ایک روز میری والدہ کا خط آیا کہ خرچے کے پیسے بھیجو۔اس سے چند روز پہلے ہی مجھے قائد اعظم نے 200روپے انعام میں دیے تھے ۔ خیر میں نے انہیں ماں کے خط کے بارے میں بتایا تو پوچھنے لگے کہ وہ 200روپے کیا ہوئے ؟ جواب دیا خرچ ہوگئے۔ قائد اعظم یہ سن کر بولے’’ ویل مسٹر آزاد۔۔! تھوڑا ہندو بنو ‘‘ ، کہنے کا مطلب یہ تھا کہ ہندو اپنی عادات و خصائل کے حوالے سے بڑے کنجوس ہوتے ہیں ۔ قائد اعظم نے بھی اپنے ڈرائیور کو تلقین کی دیکھ بھال کے خرچ کیا کرو۔