اسلامک کارنر

گھر میں غریبی اور محتاجی داخل نہیں ہوگی،بس گھر میں یہ ایک چیز رکھ لو

حضرت جابر رضی اللہ عنہ بن عبد اللہ روایت فرماتے ہیں: “نبی صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے ایک مرتبہ اپنے گھر والوں سے سالن کا پوچھا. انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس سرکہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے.انہوں نے اسے طلب کیا اور فرمایا کہ سرکہ بہترین سالن ہے”.حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہ روایت فرماتی ہیں: “ہمارے پاس نبی صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم تشریف لائےاور پوچھا کہ

کیا تمہارے پاس کھانے کے لئے کچھ ہے۔ میں نے کہا نہیں! البتہ باسی روٹی اور سرکہ ہے. فرمایا کہ اسے لے آؤ. وہ گھر کبھی غریب نہیں ہوغریب ہو گا. جس میں سرکہ موجود ہے”.حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتی ہیں: “رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے فرمایا سرکہ بہترین سالنہے”.حضرت ام سعد رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کہ گھر میں موجود تھی اور انہوں نے فرمایا:کیا تمہارے پاس کھانے کو کچھ ہے. انہوں نے کہا ہمارے پاس روٹی، کھجور اور سرکہ ہے. رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے فرمایا: “بہتر سالن سرکہ ہے.” اے اللہ! تو سرکہ میں برکت ڈال کے یہ مجھ سے پہلے نبیوں کا سالن تھا. اور وہ گھر غریب نہ ہو گا

جس میں سرکہ موجود ہو”. ۔سالن سرکہ ہے.” اے اللہ! تو سرکہ میں برکت ڈال کے یہ مجھ سے پہلے نبیوں کا سالن تھا. اور وہ گھر غریب نہ ہو گا جس میں سرکہ موجود ہو”.حضرت آدم علیہ السلام بہشت سے زمین پر تشریف لے آئے تو بارگاہ خداوندی میں عرض کیا۔ کہ خدایا میں یہاں نہ تو ملائکہ کی تسبیح و عبادت کی آواز سن سکتا ہوں نہ ہی کوئی عبادت خانہ نظر آتا ہے جیسا کہ آسمان میں بیت المعمور دیکھتا تھا۔ جس کے ارد گرد ملائکہ طواف کرتے تھے۔ اس پر اللہ پاک کا حکم آیا کہ جاؤ جہاں پر ہم نشان بتائیں وہاں پر کعبہ بیت اللہ بنادو۔اور اس کے ارد گرد طواف بھی کر لو اس کی طرف نماز بھی ادا کر لو۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام ان کی رہبری کے لئے ان کے ساتھ چل پڑے۔

اور انہیں اس مقام پر لے آئے جہاں سے زمین بنی تھی یعنی جس جگہ جھاگ بنی تھی اور پھر وہی جھاگ پھیل کر پوری زمین بنی۔حضرت جبرائیل علیہ السلام حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اپنا پر مار کر ساتویں زمین تک بنیاد رکھ دی۔ جس کو ملائکہ نے پانچ پہاڑوں کے پتھروں سے بھرا، کوہ طور، کوہ لبنان، کوہ جودی، کوہ طور زیتا، اور کوہ حرا۔ بنیاد بھرنے کے بعد نشان کے لئے چاروں طرف کی دیواریں بھی اٹھا دیں۔ اس طرف حضرت آدم علیہ السلام نماز بھی پڑھتے رہے اور طواف بھی کرتے رہے۔ طوفان نوح تک کعبہ اسی حالت میں رہا۔ طوفان کے وقت وہ عمارت آسمان پر اٹھا لی گئی اور وہ جگہ ایک اور اونچے ٹیلے کی صورت میں رہ گئی۔ مگر لوگ پھر بھی برکت کے لئے

یہاں آتے تھے۔ اور آ کر دعائیں مانگتے تھے۔پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے تک کعبہ اسی حالت میں رہا۔ جب حضرت اسماعیل اور حضرت حاجرہ یہاں آ کر رہے اور یہاں کچھ آبادی ہو گئی تو حضرت حاجرہ کے انتقال کے بعد حضرت ابراہیم کو حکم ہوا کہ حضرت اسماعیل کو ساتھ لے کر خانہ کعبہ کی عمارت تعمیر کریں۔اس کی نشانی اس طرح کی گئی کہ ایک بادل کا ٹکڑا بھیجا گیا تاکہ اس کے سایہ سے کعبہ کی حد مقرر کی جائے۔ حضرت جبرائیل نے اس سایہ کی مدد سے خط کھینچا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس خط پر اس قدر کھدائی کی کہ بنیاد آدم نمودار ہو گئی۔ پھر اس پر عمارت بنائی۔اس کی بلندی ۹ ہاتھ تھی ار رکن اسود سے رکن شامی تک دیوار کی لمبائی ۳۳ ہاتھ

اور رکن شامی سے رکن غربی تک ۲۲ ہاتھ۔ اور رکن غربی سے رکن یمانی تک ۳۱ ہاتھ اور رکن یمانی سے رکن اسود تک ۲۰ ہاتھ تھی۔ اس طرح خانہ کعبہ کی عمارت مستطیل کی شکل میں بنی۔ حضرت ابراہیم نے خانہ کعبہ کے اندر ایک تغار سا بنایا ۔ تاکہ کعبہ کے لئے جو نذرانے اور تحفے آئیں وہ اس میں رکھے جا سکیں۔ اس کے دروازے دو تھے ایک داخل ہونے کے لئے اور ایک نکلنے کے لئے۔ کعبہ بنانے والے حضرت ابراہیم تھے اور ان کو گار اور پتھر اٹھا کے دینے والے حضرت اسماعیل تھے۔ اس دفعہ اس کی تعمیر کے لئے ۳ پہاڑوں کے پتھر لائے گئے۔ بعد میں اس عمارت میں کچھ تبدیلیاں بھی کی گئی۔ اس کی اونچائی مزید بڑھائی گئی۔ دروازہ بھی دو کے بجائے ایک کیا گیا

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button