مری بائیکاٹ مہم زور پکڑنے کے بعد پورا مری سنسان ہو گیا، پریشانی کے عالم میں تاجر رونے لگے عوام کے منتیں ترلے کرنے لگے تفصیلات جانیں
مری والوں کی پیسہ کمانے کی چاہ نے کئی جانیں لے لیں۔ تو اس انتہائی برے رویے پر پاکستانیوں نے مری بائیکاٹ کی مہم چلا رکھی ہے جو اب زور پکڑتی جا رہی ہے جس کی وجہ سے اب مری میں ایسا سناٹا ہے۔جیسے آپ مری نہیں کسی قبرستان میں آ گئے ہوں۔ جہاں دیکھیں گے اب سب دوکاندار اور ہوٹل والے فارغ بیٹھے ہیں کوئی گاہک نہیں آ رہا ہے۔مری بائیکاٹ مہم پر مری میں ہی رہنے والے ایک بزرگ پرویز اختر کا کہنا تھا کہ ان ہوٹل والوں کے رویے کی وجہ سے ہم پوری دنیا میں بدنام ہو گئے، لوگوں نے بھی دیکھا کہ کیسے ان لوگوں نے اپنی دوکانوں پر جمی برف نیچے اتار کر سڑکوں پر پھینکی جس کی وجہ سے سڑک میں موجود برف میں اضافہ ہوا۔ان کا یہ بھی کہناتھا کہ اس رویے سے ہم تو پورے پاکستان سے پیچھے چلے گئے ہیں، لوگ سمجھتے ہی یہ ہیں کہ مری کے لوگ بے حیا لوگ ہیں۔آپ نے سنا ہی ہو گا کہ مری میں لوگوں کو 40 سے 80 ہزار تک ایک کمرا دیا گیا تو اسی بات پر مری میں پچھلے 3 دن سے موجود ملتان سے آئے عادل نامی لڑکے کا کہنا تھا کہ ہم سے ایک کمرے کے 32 ہزار لیے گئے اور اس میں بھی کئی لوگ ہمارے ساتھ گھسا دیے گئے۔اس 32 ہزار والے کمرے بھی کوئی سہولت نہیں تھی، اور یہاں صرف اس لیے رکے ہوئے تھے تا کہ راستے کھل جائیں تو ہم واپس جا سکیں۔اب یہاں آپکو بتاتے ہیں کہ ہوٹل مالکان کا اس افسوسناک واقعے پر کیا کہنا ہے تو ایک حضرت جن کے مری میں ہی 2 ہوٹل ہیں انہوں نے اس بات کو جھوٹ قرار دیا کہ ہم لوگوں نے 500 کا انڈا،300 روپے کی پانی کی بوتل، یا حد سے زائد کرایہ لیا ہو۔اور یہ بھی کہا کہ ایک انڈا 50 روپے، پانی کی بوتل 100 روپے کی فروخت کی ہے۔جب مری کے ایک اور ہوٹل کے مالک سے سوال کیا کہ ایک عورت نے یہاں اپنا زیور تک دے دیا جب جا کر اس کی فیملی کو رہنے کو جگہ ملی، جس پر اس مالک کا کہنا تھا کہ یہ سب بالکل غلط ہے۔
کیونکہ میں اپنے ہوٹل کا ریکارڈ چیک کروا سکتا ہوں جس سے واضح ہو جائے گا کہ میں نے ہیٹر لگا کر لوگوں کو 3 سے 4 ہزار روپے میں کمرے دیے۔اس کے علاوہ دیگر ہوٹل والوں کا کہنا تھا کہ کئی لوگ مری کی حدود میں داخل ہی نہیں ہوئے گاڑیوں کے رش میں ہی پھنسے رہے اور سڑکوں پر ہی ان کا انتقال ہو گیا۔تو کچھ نے کہا کہ ہمارے یہاں کے بہت سے ہوٹل والوں نے لوگوں کو مفت میں رہنے دیا تو کسی نے حکومت کو اس مسئلے کا زمہ دار ٹھریا۔