اب کوئی مری نہیں جاسکتا مری کو سیاحوں کے لیے بند کردیا گیا اور لوگوں کو لوٹنے والے ہوٹل مالکان کے لیے بہت بری خبر
مری سانحے کے بعد سوشل میڈیا پر بائیکاٹ مری کی مہم شروع ہوگئی تھی۔ لوگوں نے اس پیغام کو خوب شیئر کیا اور ایک دوسرے کو آگاہ کیا۔ جس کے بعد یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی کہ اب مری میں کوئی نہیں ہے۔ ہوٹل مالکان نے بھی ویڈیوز بنائیں اور کہا کہ ہمارے ہوٹل بالکل خالی ہیں یہاں کوئی نہیں ہیں ہمارا کاروبار بند ہوگیا ہے۔
لیکن اب ضلعی انتظامیہ راولپنڈی کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ 17 جنوری تک مری میں سیاحوں کی آمد کو بند کر دیا گیا ہے اب وہاں کوئی نہیں جا سکتا۔نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹرویز اتھارٹی کے مطابق اب 17 جنوری تک مری میں غیرمقامی افراد اور سیاحوں کے داخلے پر پابندی عائد رہے گی۔ حکام کے مطابق اس پابندی کا اطلاق محکمہ موسمیات کی پیشنگوئی اور ضلعی انتظامیہ کی ہدایات پر کیا گیا ہے۔
مقامی انتظامیہ کے مطابق مری سے سیاحوں کا بڑی تعداد میں انخلا ہو چکا ہے اور گاڑیوں میں پھنسے ہوئے افراد کو محفوظ مقامات پر پہنچا دیا گیا تھا لیکن ایسے افراد جن کی گاڑیاں اب تک برف میں دبی ہوئی ہیں اس بات پر مصر ہیں کہ وہ اپنی گاڑیاں لے کر ہی گھروں کو واپس جائیں گے۔
حکام کا کہنا ہے کہ سیاحوں کی برف میں پھنسی ہوئی گاڑیوں کو وہاں سے نکالنے کے لیے ایک نجی ٹرانسپورٹ کمپنی کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں تاہم ابھی تک ان مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
مری میں انتظامیہ کا کہنا ہے کہ فی الحال مری میں سیاحوں کی آمد پر پابندی برقرار ہے اور آئندہ یہاں آنے والے سیاحوں کی تعداد کو محدود رکھا جائے گا۔
خیال رہے کہ حکومت کی جانب سے مری جانے پر پابندی کے باوجود سیاحوں کی بڑی تعداد پیر کو بھی دن بھر ٹول پلازے سے مری کی حدود میں داخل ہونے کی کوشش کرتی رہی۔
اسسٹنٹ کمشنر مری عمر مقبول نے بی بی سی کی حمیرا کنول کو بتایا کہ اس وقت تمام شاہراہیں کھول دی گئی ہیں، یہاں بہت کم سیاح ہوٹلوں میں موجود ہیں اور دیگر کو بحفاظت ان کے گھروں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’مری کے تمام لِنک روڈ اور مرکزی شاہراہیں کلیئر ہیں اگر کسی کے گھر کے سامنے اور روڈ پر بھی برف ہے تو وہ بھی ہم دیکھ رہے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ‘ابھی تمام بلڈنگز اور ہوٹلوں کا آڈٹ کر رہے ہیں ان کی سیفٹی کے حوالے سے اور جو شاہراہیں کھلی ہیں ان کو بھی اور چوڑا کر رہے ہیں ہر چیز مکمل ہونے تک ہم مری کو بند رکھیں گے اور ہماری کوشش ہے کہ اس کام کو جلد ازجلد مکمل کریں۔
’اب ہم مری آنے والے سیاحوں کی تعداد کو بھی محدود کریں گے اور اس پر ابھی فیصلہ ہو رہا ہے۔‘
ریسکیو 1122 کی جانب سے جاری کردہ فہرست کے مطابق مرنے والوں میں 10 مرد، دو خواتین اور 10 بچے شامل تھے جن میں اسلام آباد پولیس کے اہلکار نوید اقبال اور ان کے خاندان کے آٹھ افراد کے علاوہ مردان سے تعلق رکھنے والے چار رشتہ دار اور ایک اور خاندان کے سات افراد بھی شامل تھے۔ زیادہ تر ہلاکتیں کلڈنہ کے علاقے میں سڑک پر پھنسی چار گاڑیوں میں ہوئی تھیں۔
وزارت داخلہ نے تیسرے روز بھی سیرو تفریح کے لیے مری جانے والوں کے لیے راستہ بند رکھا ہے اور صرف ان افراد کو جانے کی اجازت ہے جن کے پاس مری کے رہائشی ہونے کا ثبوت ہے۔
’اپنی گاڑیاں لے کر ہی جائیں گے‘
مری میں سیاحوں کی اموات کے بعد مقامی انتظامیہ نے فوج اور دیگر اداروں کی مدد سے ریسکیو آپریشن اور سڑکوں سے برف کی صفائی کا بڑا آپریشن شروع کیا تھا لیکن پیر کے دن ایک بار پھر برف باری کے باعث اسے اب تک مکمل نہیں کیا جا سکا۔
مقامی انتظامیہ کے ایک اہلکار محمد نذیر نے بی بی سی کو بتایا کہ مری کی سڑکوں سے بڑی حد تک برف کو ہٹا دیا گیا ہے تاہم گلیات کی طرف جانے والی کچھ شاہراوں سے ابھی بھی برف ہٹانے کا کام جاری ہے۔
دوسری جانب حکومت کی طرف سے سڑکوں پر پھنسے ہوئے یا مری سے پیدل اسلام آباد کی طرف جانے والے افراد کو ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کی گئی تھی۔ ایسے افراد کو اسلام آباد پہنچ کر اپنی مدد آپ کے تحت اپنا بندو بست کرنا تھا۔
مری سیاحوں سے خالی لیکن ہوٹلز کو تنقید کا سامنا
مقامی صحافی عمران اصغر نے بی بی سی کو بتایا کہ سوموار کے دن مری کی مال روڈ پر کچھ دکانیں ہی کھلی نظر آ رہی تھیں۔
’وہاں پر سیاح تو نہیں ہیں البتہ لوگ اپنی دکانوں کے سامنے اپنی مدد آپ کے تحت برف ہٹا رہے ہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ پولیس اور سکیورٹی فورسز کے اہلکار ان علاقوں میں گشت کرتے بھی دکھائی دیے۔
مری میں ہوٹل اسوسی ایشن کے ایک نمائندے محمد اشفاق کے مطابق اس وقت مری کے ہوٹلز میں سیاح نہ ہونے کے برابر ہیں۔
انھوں نے کہا کہ صرف وہی لوگ ہیں جو برف باری شروع ہونے سے پہلے ہی ہوٹلوں میں موجود تھے جن میں سے زیادہ تر پنجاب کے دور دراز علاقوں سے آئے اور وہ چاہتے ہیں کہ وہ اپنی گاڑیاں جو اب تک برف میں دھنسی ہیں ساتھ لے کر جائیں۔
محمد اشفاق نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ ہوٹل مالکان نے اس آفت کے دوران سیاحوں سے منھ مانگے دام وصول کیے جو کہ بیس ہزار روپے سے چالس ہزار روپے تک بتائے جا رہے ہیں۔
محمد اشفاق کے اس دعوے کے برعکس صحافی عمران اصغر کا کہنا ہے کہ انھوں نے متعدد ایسے سیاحوں سے ملاقات کی جنھوں نے دعویٰ کیا کہ جس کمرے کا کرایہ شدید برف باری شروع ہونے سے پہلے تین ہزار سے سات ہزار روپے یومیہ تھا، برف باری کے پہلے روز اس کمر ے کا کرایہ بیس ہزار روپے جبکہ دوسرے اور تیسرے روز ان کمروں کا کرایہ تیس سے چالیس ہزار روپے کردیا گیا۔
انھوں نے کہا کہ جب کچھ سیاحوں نے کرائے بڑھانے پر اعتراض کیا تو ہوٹل کے مالکان انھیں کمرہ خالی کرنے کا کہتے تھے
ٹھنڈیانی میں پھنسے افراد
مقامی انتظامیہ کے اہلکار محمد نذیر کے مطابق سکیورٹی فورسز کے اہلکار ہیوی مشنری کے ذریعے ایوبیہ اور دیگر علاقوں میں شاہراہوں سے برف ہٹانے کا کام کر رہے ہیں۔
عمران اصغر کے مطابق ایوبیہ روڈ اور گلیات کی طرف جانے والی کچھ شاہراہیں ابھی بھی بند ہیں جن پر سے برف ہٹانے کے لیے کام کیا جا رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اطلاعات موصول ہو رہی ہیں کہ کچھ لوگ ان علاقوں میں ابھی تک برف میں پھنسے ہوئے ہیں تاہم اس سلسلے میں مقامی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں صوبہ خیبر پختونخوا اور گلیات کی انتظامیہ کے ساتھ رابطے میں ہیں۔
دوسری جانب ٹھنڈیانی کے علاقے میں ریاست کے زیر انتظام چلنے والے ٹیلی ویژن کے آٹھ ملازمین ابھی تک برف میں پھنسے ہوئے ہیں۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں پی ٹی وی کے ایک ملازم کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ گذشتہ چار روز سے ہونے والی برف باری کی وجہ سے انھیں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
پی ٹی وی کے ملازم کے بقول ان کے پاس کھانے پینے کا سامان ختم ہو چکا ہے جبکہ شاہراہیں بھی بند ہیں۔ اس ویڈیو پیغام میں پی ٹی وی کے ملازم نے حکومت پاکستان سے اپیل کی کہ وہ ان کی مدد کریں ورنہ وہ مر جائیں گے۔
تحقیقاتی کمیٹی کو سات دن میں رپورٹ دینے کا حکم
پنجاب حکومت کی جانب سے قائم تحقیقاتی کمیٹی کے اراکین میں ایڈیشنل چیف سیکریٹری پنجاب ظفر نصراللہ، سیکریٹری حکومت پنجاب علی سرفراز، سیکریٹری حکومت پنجاب اسد گیلانی، اے آئی جی پولیس فاروق مظہر شامل ہیں جب کہ پانچویں رکن کی نامزدگی بعد میں کی جائے گی۔
اس تحقیقاتی کمیٹی کو سات دن کے اندر رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ کمیٹی یہ تحقیقات کرے گی کہ ضلعی انتظامیہ اور پولیس سمیت متعلقہ محکموں نے محکمہ موسمیات کی جانب سے خراب موسم کی پیشگوئی کے باوجود کوئی مشترکہ ایکشن پلان بنایا تھا یا نہیں۔
کمیٹی اس بات پر بھی تحقیقات کرے گی کہ جب مری میں گاڑیاں گنجائش سے زیادہ ہو رہی تھیں تو گلیات اور اسلام آباد سے انٹری پوائنٹس پر سیاحوں کو کیوں نہ روکا گیا۔
اس کے علاوہ کمیٹی اس حادثے کی وجوہات کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ ریسکیو آپریشن کے مؤثر ہونے یا نہ ہونے کا بھی جائزہ لے گی۔
یہ تحقیقاتی کمیٹی ان آٹھ سوالوں کے ممکنہ جوابات کے حوالے سے تحقیقات کرے گی:
محکمہ موسمیات نے مری کے حوالے سے کئی وارننگز جاری کیں، اس کے باوجود کیا متعلقہ محکموں نے جوائنٹ ایکشن پلان ترتیب دیا؟
کیا الیکٹرانک، پرنٹ یا سوشل میڈیا کے ذریعے سفری تجاویز جاری کی گئی؟
جب مری میں رش ایک حد سے بڑھ گیا تو اسلام آباد اور مری کے داخلی راستوں پر گاڑیوں کو کیوں نہیں روکا گیا؟
کیا ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے پہلے سے کوئی منصوبہ بندی کی گئی تھی؟
کیا پھنسے ہوئے لوگوں کو پناہ دینے کے لیے ہوٹل اور گیسٹ ہاؤسز کو ہدایات جاری ہوئیں؟
جب برف کا طوفان آیا تو ریکسیو آپریشن کی تفصیلات کیا تھیں؟ کیا لوگوں کو گاڑیوں سے نکال کر محفوظ مقامات پر بروقت منتقل کیا گیا؟
وہ کون سی وجوہات تھیں جو اس سانحے کا باعث بنیں؟
واضح رہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے مری میں سیاحوں کی ہلاکتوں پر تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ایسے سانحات کی روک تھام کے لیے کڑے قواعد لاگو کرنے کے احکامات صادر کر چکے ہیں۔
ٹوئٹر پر جاری بیان میں وزیر اعظم نے کہا تھا کہ ‘مری کے راستے میں سیاحوں کی المناک اموات پر نہایت مضطرب اور دلگرفتہ ہوں۔ ضلعی انتظامیہ خاطرخواہ تیار نہ تھی کہ غیر معمولی برفباری اور موسمی حالات کو ملحوظِ خاطر رکھے بغیر لوگوں کی بڑی تعداد میں آمد نے آ لیا۔’
مری کو ضلعے کا درجہ دینے کا فیصلہ
وزیرِ اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی صدارت میں اتوار کو ایک اجلاس بھی منعقد ہوا جس کے بعد جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق مری کو ضلعے کا درجہ دینے کا فیصلہ کیا گیا جو اس وقت ضلع راولپنڈی کی تحصیل ہے۔
اجلاس میں مری کی سڑکوں کی تعمیرِ نو، پارکنگ کی سہولیات اور غیر قانونی تعمیرات سے متعلق بھی فیصلے لیے گئے جبکہ مری جانے والی گاڑیوں اور لوگوں کی تعداد کو بھی محدود کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق مری اور آس پاس کے علاقوں میں پھنسی تمام گاڑیوں سے لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا ہے جبکہ مری اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں پانچ ریلیف کیمپ قائم کیے گئے ہیں جہاں متاثرین کو خوراک اور گرم ملبوسات اور کمبل فراہم کیے جا رہے ہیں۔