رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
ضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا خدا کی قسم میں دن میں ستر دفعہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں توبہ اور استغفار کرتا ہوں۔“(بخاری شریف) اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی، جلال و جبروت کے بارے میں جس بندے کو جس طرح کا شعور و احساس ہو گا
وہ اپنے آپ کو اس درجہ ادائے حقوق عبدیت میں قصور وار سمجھے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بار بار اور مسلسل توبہ و استغفار کی طرف متوجہ رہتے تھے اور اس کا اظہار فرما کر دوسروں کو بھی اس طرف متوجہ کرتے اور تلقین فرماتے تھے جیسے کہ ایک دوسری روایت میں اغرالمزنیؓ سے منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”اے لوگو! اللہ کے حضور میں توبہ کرو میں خود دن میں سو سو دفعہ اس کے حضور میں توبہ کرتا ہوں۔ یہ ستر اور سو کی تعداد دراصل کثرت کو بیان کرنے کے لیے ہے اور قدیم عربی زبان کا عام محاورہ ہے ورنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے توبہ و استغفار کی تعداد یقینا اس سے بہت زیادہ ہوتی تھی۔
یہ تو اس ذات کا حال ہے جس کے کوئی گناہ ہیں ہی نہیں۔ دراصل اس طرح کی روایات سے امت کو تعلیم دینا مقصود ہے کہ ہمیں ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا اور توبہ و استغفار کرنا چاہیے کیونکہ توبہ و استغفار نہ کرنے کی صورت میں گناہوں کی سیاہی رفتہ رفتہ انسان کے دل پر چھا جاتی ہے اسی بناء پر ایک حدیث میں فرمایا گیا مومن بندہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے پھر اگر اس نے اس گناہ سے توبہ کی اور اللہ تعالیٰ کے حضور میں معافی و بخشش کی التجاء اور استدعاء کی تو وہ سیاہ نقطہ زائل ہو کر قلب صاف ہو جاتا ہے اور اگر اس نے گناہ کے بعد توبہ و استغفار کے بجائے
مزید گناہ کیے اور گناہوں کی وادی میں قدم بڑھائے تو دل کی وہ سیاہی اور بڑھ جاتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہی وہ زنگ ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا: ”کہ ان لوگوں کی بدکاریوں کی وجہ سے ان کے دلوں پر زنگ اور سیاہی آگئی ہے۔“