یہ تو جہ-نم میں خود گئے
نبی کریم ﷺ ایک سفر سے واپس آ رہے تھے، ایک جگہ آپ نے پڑاؤ ڈالا، بستی قریب تھی، ایک عورت تھی جس کا تنور تھا، اس نے لشکر کی روٹیاں بھی پکائیں، جب پکا کر فارغ ہو گئی تو صحابہ رضی اللہ عنہ سے کہنے لگی: میں تمہارے صاحب سے بات کرنا چاہتی ہوں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اُسے نبی کریم ﷺ کے پاس لے آئے۔ کہنے لگی اللہ کے پیارے رسولﷺ میں آپ سے ایک بات پوچھنا چاہتی ہوں۔ فرمایا: پوچھو! کہنے لگی: میں ماں ہوں، تنور میں روٹیاں لگاتی ہوں، چھ سال کا میرا ایک چھوٹاسا بچہ ہے، میں اس کو آگ کے قریب آنے نہیں دیتی کہ اسکو کہیں
گرم ہوا نہ لگ جائے، خود آگ میں ڈبکیاں لگاتی ہوں، روٹی لگانے اور نکالنے کے لیے۔ لیکن میں اپنے بچے کو گرم ہوا کا لگنا بھی پسند نہیں کرتی، تو میں نے آپ سے سُنا تھا کہ ساری دنیا کی ماؤں کی محبتوں کو جمع کر دیا جائے، اس سے ستر گناہ زیادہ بندوں سے اللہ پاک محبت کرتے ہیں، تو اللہ پاک بندے کو جہ-نم میں جانا کیسے پسند فرمائیں گے؟ حدیثِ پاک میں آتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے یہ بات سُن کر سر جھکایا، مبارک آنکھوں میں آنسو آنے لگے، روتے رہے، روتے رہے،
حتیٰ کہ جبرائیل ؑ اللہ کا پیغام لے کر آئے، میرے محبوب! اس عورت کو بتا دیں: وما ظلمھم اللہ ولکن کانوا انفسھم یظلمون۔ ترجمہ: اللہ نے ان پر ظ-لم نہیں کیا، انہوں نے اپنی جانوں پر خود ظ-لم کیا، اپنے پاؤں پر خود کل-ہا-ڑی ماری، کیوں کہ اللہ تو چاہتے ہیں کہ یہ بچ جائیں، لیکن بات یہ ہے کہ تو-بہ نہیں کرتے، تو-بہ کی طرف آتے ہی نہیں، بلکہ رب کی ماننے کے بجائے شی-طان کی مانتے پھرتے ہیں، اور تو-بہ کو ضائع کرتے ہیں، بھول جاتے ہیں، تو یہ تو اپنے عمل کی وجہ سے جہ-نم میں جائیں گے